"مکمل تحفظ کی بحالی تک عوام محفوظ نہیں: صدارتی ترجمان

صدارتی ترجمان  ابراہیم قالن کا کہنا ہےکہ   ترکی نے جس طرح سے داعش کے خلاف  جنگ میں  عالمی تعاون  کی حمایت کی ہے  اسی طرح سے اس کا حق بنتا ہے کہ وہ  عالمی برادری سے پی کےکے اورفیتو جیسی ملک دشمن تنظیموں کے خلاف تعاون حاصل کرے

555657
"مکمل تحفظ کی بحالی تک عوام محفوظ نہیں: صدارتی ترجمان

صدارتی ترجمان  ابراہیم قالن کا کہنا ہےکہ   ترکی نے جس طرح سے داعش کے خلاف  جنگ میں  عالمی تعاون  کی حمایت کی ہے  اسی طرح سے     اس کا حق بنتا ہے کہ وہ  عالمی برادری سے پی کےکے اور   فیتو   جیسی ملک دشمن تنظیموں کے خلاف تعاون حاصل کرے۔

 15 جولائی کے بعد  ترکی    اس وقت پی کےکے، داعش اور فیتو تنظیموں  سے  در پیش خطرات   کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ ہائیپر  موڈرنائٹ اور  عالمگیری  تجربات نے ہمیں یہ سکھایا ہے    آپ اس وقت  عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے جب تک  اس کا آپ کو یقین نہ ہو۔

ترکی  سالہ سال سے پی کےکے کے خلاف  حالت جنگ میں ہے ۔ماضی کی غلط پالیسیوں  کی وجہ سے پی کےکے  کو  اپنی شر انگیزیاں بڑھانے کی شہ ملی ہے جس نے  کرد نسل پرستی کو بلا وجہ  ہوا دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں  کیا ۔

 صدر رجب طیب ایردوا ن کے دور وزارت عظمی   میں  مسلح جدوجہد کے خاتمے  کےلیے جرات مندانہ اقدامات اٹھائے گئے   جو کہ سیاسی لحاظ  سے بھی کافی   حساس موضوعات تھے ۔ کرد اکثریتی علاقوں میں    سرمایہ کاری کو فروغ دیا گیا  ، کرد تشخص کو  قبول کرتےہوئے کردی زبان  میں نشریات  اور آزادی اظہار کی اجازت دی گئی اور ان کے دلوں میں  اس ملک  کا شہری  ہونے کا احساس  بیدار کیا گیا ۔

 ملک میں سیاسی منافرت  اور  نسل پرستی کے خاتمے    کی  تحریک کا اصل مقصد  پی کےکے  کو اسلحے سے  پاک کرنا تھا ۔ قید و بند  پی کےکے  کے لیڈر عبداللہ اوجلان     کی  اپیلوں کے باوجود دہشت گردوں نے اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھیں  جن کا حلقہ شہروں  تک پہنچ گیا ۔

 کرد نواز سیاسی جماعت HDP  نے  اس مسئلے کے سیاس تصفیے  میں تعاون کرنے  کا  وعدہ کرتے ہوئے ایوان میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی  مگر ہوا یہ کہ وہ ایوان میں صرف پی کےکے  کی آواز بن کر رہ گئی  اور  جتنے بھی حملے ہوئے  ان کی مذمت کےلیے اس  نا م نہاد سیاسی جماعت سے کسی قسم کا مذمتی بیان نہیں دیا گیا ۔ ایچ ڈی پی نے   پی کےکے     کو اسلحے سے پاک کرنے  کی کبھی بھی  حوصلہ افزائی  نہ کی    حتی اس نے   پی کےکے کے خلاف  بیانا ت دینے  پر صدر ایردوان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔

 صدر ایردوان  نے  متعدد مواقعوں پر     سیاسی حل   کو فی الوقت معطل کرتےہوئے  اسے پی کےکے کے اسلحے سے پاک  ہونے سے منسلک قرار دیا ۔

 آج ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ  پی کےکے  کا اصل ہدف    کردوں کو در پیش مسائل نہیں  بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم  کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنا  اور تسلیم کرواناہے مگر   شائید انہیں یہ علم نہیں کہ دنیا کا کوئی بھی جمہوریت پسند ملک   مسائل  کے پُر امن حل    کی  طرف داری  میں کسی دہشت گرد تنظیم    کے وجود کو  اپنی صفوں میں قبول نہیں کر سکتا۔

پی کےکے  اور اس کے سیاسی  کارندے کردی مسئلے کا جو جواز پیش کرتے ہیں در حقیقت اُس کا  کردوں کو درپیش اصل مسائل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور وہ ان    فرضی مسائل  کواس قدر ڈھٹائی سے  پیش کرتےہیں  جیسے یہ کرد شہریوں   کا   تیار کردہ کوئی ایجنڈہ ہو۔

 اگر دیکھا جائے تو  یہ حقیقت سے کہیں دور ہے ۔ترکی میں  ترکوں اور کردوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنا  پی کےکے کا کام ہے ۔ ابھی حال ہی میں پی کےکے  نے  دیار باقر،وان ۔ایلازیع اور بتلیس  میں  کار بم دھماکے  کرتےہوئے متعدد حفاظتی اہلکاروں  اور  معصوم عوام کو  ہلاک کیا ۔

 یورپ اور امریکہ کو چاہیئے کہ وہ  پی کےکے  کی شر پسندانہ سرگرمیوں پر اُس کی واہ واہ   کرنے کا مطالبہ   ترکی سے کرنے کے بجائے  اُن کی مذمت کرے اور  مغربی دنیا میں    اس کی مالی اعانت میں ملوث عناصر  کا خاتمہ اور ترکی مخالف  مہم کو بند کروانے میں مدد کرے۔

شام کا جہاں تک سوال ہے تو وہاں   داعش کے خلاف  جنگ کے بہانے  pyd اور پی وائی جی  عوام پر بم برسا رہی ہے۔ ان کی  ظالمانہ  کاروائیوں کی   ثبوت ہر گزرتے روز ہمیں مل رہا ہے  مگر دنیاکی  بے حسی اور خاموشی   کا شرمناک چہرہ ہماری آنکھوں کے سامنے    منڈلاتا پھر رہا ہے۔ ان دونوں تنظیموں کواسد نواز اقتدار اور داعش کی آشیرباد حاصل ہے ۔ شام کی جنگ    ختم  نہ ہوئی تو داعش   کا ظلم بھی  اسی طرح سر چڑھ کر بولتا رہے گا  اگر  شام  میں امن چاہیئے تو جنگ بندی کےلیے  اسد کو  اقتدار چھوڑنا ہوگا۔ ترکی کی شام سے سرحد 711 کلومیٹر طویل ہے       جہاں سے شامی مہاجرین   کے بوجھ  کو برداشت کرنے کی ذمہ داری ہم  پر بھی عائد ہو رہی ہے۔

 داعش کے خلاف جنگ میں   ترکی نے اتحادی قوتوں کو  تعاون فراہم کرنے میں  کسر نہیں چھوڑی ، ترکی نے اب تک  داعش سے  رابطے میں ملوث  50 ہازر سے زائد افراد کو پکڑوایا  یا ملک بدرکیا ۔ شامی مہاجرین کی ترکی آمد کے دوران  سرحدوں پر انتظامات سخت کر دیئے گئے جس کا پھل ہمیں  شام کی طرف سے  داغے گئےداعش کے بموں  اور انقرہ اور استنبول میں بم دھماکوں کی صورت میں ملا۔

 بعض یورپی ممالک  نے اپنی سلامتی کی خاطر  خفیہ معلومات  کا تبادلہ کرنے کے بجائے   الٹا  ترکی   کی سر زنش شروع کر دی  اگر یہ ممالک  اپنی سلامتی کےلیے اتنے ہی پر تول رہے ہیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ اس سلسلے میں  ترکی   سے تعاون کرتے ۔ یاد  رہے کہ    ترکی سے ملک بدر ہونے والے بعض دہشت  گردوں نے  فرانس اور بیلجیئم میں  حملے کیے تھے ۔

 شام کی خانہ جنگی   اور لیبیا ،افغانستان اور عراق کی  ناکام اور کٹھ پتلی   حکومتیں  ان ممالک   داعش   کے ہاتھ مضبوط بنانے     کی راہ ہموار کر رہی ہیں ان تمام کوششوں کے باوجود  ترکی    ،سیاسی، نظریاتی اور عسکری لحاظ سے دہشت  گردوں  کے خلاف  جدوجہد کو جاری رکھےہوئے ہے ۔

 15 جولائی  کی رات فیتو تحریک نے  دہشت گردی کی  ایک نئی مثال قائم کرے کی ناکام کوشش کی ۔  حکومت نے گولن  نواز حامیوں  کے عزائم کو کافی حد تک  تابہ خاک کر دیا ہے مگر ابھی   امتحان اور بھی ہیں۔

 ترکی  کے یورپی ،امریکی، عرب ممالک،افریقی اور ایشیائی  تمام  دوست ممالک پر یہ لاگو ہوتا ہے کہ وہ    گولن تحریک کے خلاف منظم اور متحد ہوتے ہوئے  ترکی سے تعاون کریں   جو کہ  اس کا حق ہے ۔

 دہشت گردی  کی خواہ کوئی بھی صورت  یا طریقہ ہو اس کے خلاف جنگ کےلیے   بھرپور عزم کا سہارا لینا مقصود ہوتا ہے اور ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ   اگر ہم   ان دہشت گرد تنظیموں   پر صرف داخلی معاملات   میں مداخلت کے جواز میں  ہاتھ ڈالنے سے پرہیز کرتے رہے  تو یہ ہمارے لیے نقصان دہ اور اُن کےلیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

 یاد رکھئے  سلامتی ہمارے لیے ضروری ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہو سکے گا جب ہم اسے مکمل طور پر  بحال کر سکیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 



متعللقہ خبریں