ناکام فوجی بغاوت سے سب سے بڑا نقصان فتح اللہ گولن کو ہی ہوا ہے، قالن

ایوان صدر کے ترجمان ابراھیم قالن نے فیتو دہشت گرد تنظیم کی 15 جولائی کی بغاوت کی کوشش کے حوالے اپنا تجزیہ پیش کیا ہے

548527
ناکام فوجی بغاوت سے سب سے بڑا نقصان فتح اللہ گولن کو ہی ہوا ہے، قالن

صدر کے  ڈپٹی سیکرٹری جنرل  اور ترجمان  ابراہیم قالن  نے دہشت گرد تنظیم فیتو   کی پندرہ جولائی   کو حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام  کوشش  نے ترک  عوام  کو حیران کن طور پر ایک جگہ جمع کرنے اور  اتحاد قائم کرنے کا موقع فراہم کیا۔

قالن نے روزنامہ  ڈیلی صباح   میں "  تر ک  عوام کو یکجا ہونے کا موقع فراہم  کرنے  والی بغاوت سے سب سے زیادہ نقصان   گؤلن  ہی کو پہنچا ہے "کے زیر عنوان ایک  مقالہ تحریر کیا ہے۔

قالن نے اپنے  مقالے میں لکھا ہے کہ  متعدد افراد کی توقعات کے برعکس  بغاوت کی کوشش سے سیاسی یا اقتصادی طور پر  نقصان پہنچنے کی بجائے  ملک میں نیا قومی اتحاد ابھر کر سامنے آیا ہے۔ استنبول  میں ینی قاپی     کے علاقے میں   ترکی کے چاروں اطراف سے  لاکھوں کی تعداد میں اکھٹے ہونے والے  افراد کی  ترکی کی تاریخ   کی سب سے بڑی ریلی   میں شرکت  ترک باشندوں  کے اتحاد اور یک جہتی کا مظہر تھا ۔

ابراہیم قالن اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ سات اگست کو ہونے والی جمہوریت ریلی میں نظر آنے والا عوامی اتحاد اوریکجہتی سرکاری اداروں میں خفیہ بھرتیوں کے خلاف فضیلت، شفافیت اور احتساب کے اصولوں پر قائم  ہے ۔ ریلی کے دوران سیاسی نظریات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں ترکی کے ہر باشندے نے  صحتمند اور بھر پور ڈیموکریسی کے بنیادی عناصر کی حیثیت سے ان اصولوں  پر عمل درآمد کرنے کے موضوع پر اتفاق  کیا ہے ۔فتح اللہ گؤلن اور اس کے مزید کئی برسوں سے اپنے حامیوں کو اہم عہدوں پر  فائز کرتے ہوئے جمہوری اصولوں کی پامالیاں کرتے  رہے ہیں ۔انھوں نے سرکاری امتحانات کے دوران خفیہ طور پر  سوال نامے اپنے وفادار مریدوں کو دئیے۔ فوج ،پولیس اور عدلیہ میں موجود مخالفین سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کے  بارے میں جعلی دستاویزات  پیش کیں اور ان پر کیچڑ  اچھالنے کے لیے پریس کو ان کے بارے میں دستاویزات فراہم  کیں ۔فیتو کے حامی انھیں ذلیل و رسوا کرنے کی مہمیں چلاتے رہے ہیں ۔

دہشت گرد تنظیم   فیتو کے  ترکی  میں  خاصکر  2008 اور   2013 کے درمیانی عرصے   کے   شاندار ترین  دور    میں    ایک لحاظ سے     ہرجانہ ادا کرنے  کے باعث     ملک کی  عمومی   فضا  کے  "بس بہت ہو گیا"      کی ماہیت کے ہونے پر توجہ مبذول کرانے والے قالن   کا کہنا تھا کہ  "عوام   کسی خاص گروہ     یا پھر  ایک غیر متوازن  امام  کے   مفادات    کے لیے نہیں   بلکہ عوام و ملت  کی خدمت  کرنے اور   عظمت   پر مبنی  کسی ذمہ دار  انتظامیہ کے حق میں ہے۔ عوام،  گزشتہ 6  تا   7    سال  میں    کئی  معصوم انسانوں    کو قتل کرنے والی   فیتو   دہشت گرد تنظیم  کے اس ڈراؤ نے  خواب سے نجات  پانے کی   متمنی ہے۔  عوامی حمایت حاصل ہونے والی  حکومت   بھی ان مطالبات  کو عملی جامہ پہنانے        پر پُر عزم ہے۔

قالن نے مزید لکھا ہے کہ   اس نئے سلسلے میں    جس کو  شکست  ہوئی ہے وہ فتح اللہ  گؤلن   اور  اس  کی ترکی میں  فیتو  دہشت گردتنظیم     ہے۔   بغاوت کی کوشش  کرنے والے   گؤلن  اب اپنی طاقت کھو چکا ہے  اور  سب  سے اہم چیز    یہ اپنے   اسکولوں  ، مریدوں ،  فرموں، مال و ملک،  احترام اور  اعتماد  سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔

گؤلن اور  اُس کے مریدوں نے   فوجی بغاوت   کے ذریعے  صدر  رجب  طیب ایردوان کو  اپنے  راستے سے ہٹانے  کی  کوشش ضرور کی مگر وہ  بھول گئے کہ   اس طرح کا اقدام ُ ان کے لیے ایک اندھی کھائی ثابت ہوگا اس پر کجا  اس کوشش سے ترکی  کو ایک موقع ہاتھ آیا  اور حکومت  نے عوام کے ساتھ مل کر  گؤلن تحریک کے  پس پردہ روپوش عزائم کا پردہ فاش کیا ۔

قالن نے کہا کہ 7 اگست     کو استنبول میں ہونے والا  جلسہ   ملکی تاریخ کی  سب سے بڑی ریلی تھی جس میں  صدر،حکومت اور حزب اختلاف  نے  شرکت کی جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ     تمام سیاسی جماعتیں  اپنے نظریات کو بالائے طاق رکھتےہوئے عوام کے شانہ بشانہ   گؤلن  کے منصوبوں   کو ناکام بنانے  اور ملک میں جمہوری روایات کو پروان چڑھانے میں   دست بہ دست ہیں۔

قالن آگے چل کر کہتے ہیں :اگر ترکی میں ان ہلاکتوں اور توڑ پھوڑ کو دیکھا جائے کہ جس کا سبب گؤلن  بنا  تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب کے بعد وہ ترکی سے باہر اپنے گروپ کو منّظم کرنے کے لئے اپنے پورے امکانات کو استعمال کرے گا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ  ہمیشہ کی طرح مال و دولت کے استعمال   ، بہتان طرا زی اور صدر ایردوان  کے مخالف افراد کے ساتھ  گٹھ جوڑ  جیسے پرانے ہتھکنڈوں کا استعمال کر کے دوبارہ حملہ کرنا چاہے گا۔ مغربی میڈیا میں 15 جولائی سے لے کر اب تک جاری پروپیگنڈے کو بھی اسی تناظر میں  دیکھنا چاہیے۔ گؤلن  کے خود کو دینی تعصب کے مقابل معتدل  دینی شخصیت کی حیثیت سے پیش کرنے پر  اب نہ تو  ترکی میں یقین کیا جا رہا ہے اور نہ ہی باقی مسلمان دنیا میں۔ یہ گؤلن  کی ایک حکمت عملی ہے کہ جسے وہ مغرب کا تعاون حاصل کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن یہ سب دعوے اس وقت  دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں کہ جب مسلمان خود اس کی شخصیت پر ہی بھروسا نہیں کرپاتے۔ یہ دعوے گؤلن  کو عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنانے کے علاوہ اور کسی کام نہیں آ رہے۔



متعللقہ خبریں