ترکی کا ثقافتی ورثہ27

زمانے کی گرد میں اٹا موعلا

521256
ترکی کا ثقافتی ورثہ27

ترکی کے  جنوب مغرب میں واقع ضلع موعلا  انطالیہ کے بعد سیاحتی اعتبار سے دوسرا اہم  شہر ہے  کہ  جو  بحیرہ روم اور بحیری ایجیئن کے درمیان  واقع ہے ۔ اس شہر کے اہم سیاحتی مقامات میں مارماریس ،فتحیہ ۔داتچا،گوکووا اور دالیان  شامل ہیں۔اس پروگرام میں ہم آپ کو  اس شہر   کی فطری و تاریخی  تاریخ کے بارے میں بتائیں گے۔

  ترکی کی  طویل ترین ساحلی پٹی  کا حامل   بھی یہی شہر ہے کہ جس کی ساحلی پٹی گیارہ سو کلومیٹر طویل ہے۔اس ضلع کی  سب سے بڑی جھیل کا نام  کوئے جائیز ہے جس کی  طوالت باون  کلومیٹر  ہے کہ جو دالیان  نہروں  کے راستےبحیرہ روم میں جا گرتی ہے ۔ میلاس کے قریب واقع بافا نامی جھیل کا کچھ حصہ  ہمسایہ ضلع آئیدین   سے گزرتا ہے۔ موعل  کی ساحلی پٹی   پر جا بجا     چھوٹے چھوٹے  قصبے موجود ہیں جن میں  گولوک،گوکوا،حصار اونو ، سومبیکی ،مارماریس،دالامان اور فتحیہ شامل ہیں۔ خلیج فتحیہ  کے کنارے  سیرالی بک اور گوجیک  کی بندر گاہیں  قابل دید مقامات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ   فتحیہ سے چودہ کلومیٹر کے فاصلے پر  واقع  اولو دینیز   کا ہرا بھرا ساحل  اور اٹھارہ کلومیٹر دور  پاتارا کا   احل  یہاں کے فطری   حسن کے دو  بہترین نمونے ہیں۔

موعلا شہر کی تاریخ  تین ہزار چار سو سال پرانی ہے کہ  جس کے مغرب میں کاریا    اور مشرق میں  دالامان اور فتحیہ  کے حامل علاقے لیکیا کہلاتے  تھے۔سات سو سال قبل مسیح میں   یہ علاقہ لیدیا قوم   کے قبضے میں آگیا  جس کے بعد  پارس، مصری،ہیلینک اور  برگاما  اور رومی  سلطنت  جیسے مختلف ادوار کے زیر سایہ رہا ۔ بعد ازاں سن  تین سو پچانوے میں یہ علاقہ مشرقی   رومی سلطنت کے  زیر تسلط آگیا ۔ترکوں کا اس علاقے پر پہلا قبضہ سن ایک ہزار اسی میں منتشہ بے کی جانب سے ہوا  کہ جو  سولہویں صدی   کے اواخر میں  یلدرم بایزید کی  طرف سے   سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا ۔ اس دور میں یونانیوں  نے موعلا کے ساحلوں اور بعض جزائر  پر دھاوا بولتے ہوئے بعض علاقے اپنے قبضے میں لے لیے تھے کہ  جس  دوبارہ سلطان سلیمان خان  کے دور میں واپس لے لیا گیا تھا۔

ضلع موعلا  کی سب سے بڑی تحصیل فتحیہ ہے  کہ جس کے  مشرق  اور جنوب مشرق میں انطالیہ ،جنوب اور جنوب مغرب میں مغربی بحیرہ روم ،شمال میں  دالامان،دینیزلی اور بوردر   واقع ہیں۔فتحیہ   کا شہر تاریخی تلمیسوس کے کھنڈرات  پر واقع ہے  جو کہ  تین ہزار سال قبل مسیح  میں لیکیا  اور کاریا کے درمیان واقع تھا ۔چھٹی صدی میں پارس  سلطنت کے قبضے میں  آنے والا تلمیسوس   چوتھی صدی میں لیکیا   ریاست کا حصہ بن گیا ۔یہ شہر   مفکرین کے حوالے سے بھی  کافی مشہور تھا ۔ بعض ذرائع کے مطابق ، سکندر اعظم   کے والد  فلپ نے ایک خواب کی تعبیر کو جاننے  کے لیے  تلمیسوس سے ایک  مفکر بلوایا تھا  جس نے اسے  سکندر  کی ولادت  اور سلطنت قائم  کرنے کی خوش  خبری دی تھی بعد ازاں  فلپ اور  مفکر آپس میں دوست بن گئے جس کی وجہ سے  یہ شہر ہیلینک  دور میں تباہی سے  محفوظ رہا ۔اس دور میں رومی سلطنت کے زیر   اس شہر  نے بازنطینی  دور تک اپنا تشخص قائم   رکھا کی جس میں  ساتویں صدی  میں عربوں کی آمد  سے  کمی واقع ہو گئی ۔ فتحیہ میں آنے والے زلزلوں کے نتیجےمیں    اس شہر کے کھنڈرات  لا پتہ ہو گئے تھے  البتہ   عہد روم اور وسطی دور  سے وابستہ بعض کھنڈرات  دیکھنا ممکن ہے ۔ شہر  کی پہاڑیوں  پر موجود  تاریخی قبرستان  دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے جو کہ چوتھی صدی قبل مسیح میں ہرما  پیاس  کے  بیٹے  امینتاس نے بنوایا تھا ۔ فتحیہ  کے اطراف میں  اولو دینیز یعنی بحیرہ مردار  کے علاوہ     وادی تتلی  بھی پائی جاتی ہے کہ جو   کوہ بابا کے دامن میں واقع ہے ۔سن انیس سو  پچانوے سے  اس علاقے کو  قومی تحفظ میں  لے لیا گیا ہے  ساڑھے تین سو  میٹر طویل اس وادی میں  اسی کے قریب   تتلیوں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔وادی میں ایک آبشار بھی موجود ہے جو کہ بحیرہ روم میں جا گرتی ہے۔اس کے علاوہ  پیراشوٹ  کے ذریعے  شہر  کا نظارہ  کرنے کا بھی موقع یہاں  سیاحوں کو  میسر آتا ہے ۔علاوہ ازیں  فتحیہ کے قریب واقع بارہ عدد جزائر  کی سیر کےلیے   کشتیوں کے سفر بھی  منعقد کیے جاتے ہی

فتحیہ  کے اطراف میں  واقع تاریخی شہروں  کی موجودگی  کی وجہ سے اسے وزارت ثقافت  کی  خاص توجہ حاصل ہے ۔ یہاں کے قابل سیر  مقامات میں  کادیاندا،تلوس،پنارا،لیتون،سیدیما اور سانتوس  قابل ذکر ہیں۔

 فتحیہ ۔قاش    پر  کینیک  نامی  قصبے کے قریب  واقع سانتوس  کا قدیم شہر بارہ سو سال قبل مسیح  میں قائم  کیا تھا ۔ مختلف آفات   اور تباہیوں کی وجہ سے   تباہ حا ل اس شہر سانتوس  کے بعض  کھنڈرات برٹش میوزیئم میں   محفوظ ہیں۔



متعللقہ خبریں