ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔24

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔24

510714
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔24

 

 

1970 کی  آخری دھائی  میں مصر اور امریکہ کے درمیان بہترین تعلقات قائم ہوئے اور مصر نے اسرائیل کیساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے ۔  اس وقت سرد جنگ کا دور تھا  ۔ اس صورتحال  سے علاقے میں سوویت یونین  کے اثر و رسوخ   پر کاری ضرب لگی ۔سوویت یونین کا افغانستان میں دلدل میں پھنسنا اور ایرانی انقلاب روس کے علاقے سے دوری کا سبب بنا۔ 1990  کے آغاز میں  سوویت سسٹم مکمل طور پر تباہ  ہو گیا  اس دور کے روسی صدر نے حالات پر قابو پانے کے لیے کویت پر قبضےکے بعد عراق کے خلاف امریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والے اتحاد میں  جگہ لی ۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ روس نے مشرق وسطی  کو اپنے ہاتھ میں لینےکے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا تھا ۔مشرق وسطیٰ میں روس کے اثرورسوخ میں کمی کیوجہ سے امریکہ نے علاقے میں اپنی طاقت کو مزید بڑھایا ۔

کیمونزم کے خاتمے کے بعدجب صدر پوتن بر سر اقتدار آئے  تو انھوں نے روس کو  مشرق وسطیٰ میں اپنی جگہ لینے کے لیے راہیں تلاش کرنی شروع کر دیں ۔ شام کے بحران کیساتھ 

رو س کے ہاتھ میں  یہ  موقع   آیا۔امریکہ  کیطرف سے بارہا صدر اسد کے اقتدار کے خاتمے کی ضرورت پر زور دینے کے باوجود روس نے اسے اقتدار  سے ہٹانے کے لیے انگلی تک نہ ہلائی ۔ روس کو شام میں تین لحاظ سے برتری حاصل تھی ۔ روس کے شام کیساتھ گہرے تاریخی روابط موجود   تھے ۔ روس کے لیے شام علاقے میں اسلحہ فروخت کرنے والی دوسری اہم منڈی تھا ۔تیسری برتری کا تعلق روس کے شام میں موجود تارتوس بحری فوجی اڈے سے تھا ۔

صدر پوتن نے شام میں صدر اسد کا ساتھ دیتے ہوئے روس کو دوبارہ مشرق وسطیٰ کا ایک اہم ایکٹر بنایا۔  اس نے سر د جنگ کے بعد زیادہ تر  ایندھن کی منتقلی کے لیے استعمال کیے جا نے والے تارتوس فوجی اڈے کو جدید بناتے ہوئے اسے کئی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے موزوں شکل دی ۔  روس نے شام میں ایک فوجی اڈہ حاصل کر  تے ہوئے علاقے میں اپنے وجود کو  مستحکم بنا لیا تھا ۔  روس نے دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ اس کی رضامندی کے بغیرشام کے مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا ۔ علاقے سے گزرنے والی قدرتی گیس پائپ لائن   روس کے اقتصادی مفادات کے لحاظ سے انتہائی اہمیت  کی حامل تھی  ۔روس نے اس موضوع پر بھی اپنی رائے دینے کا حق حاصل کر لیا تھا ۔ صدر پوتن دوبارہ مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے خواہشمند تھے لیکن روس کی اقتصادی حالت چند برسوں سے خراب تھی اور روسی اقتصادیات کے دائرے کو محدود کیا جا رہا تھا ۔ پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور  یوکرین کے بحران کیوجہ سے روس  پر عائد پابندیوں  کے نتیجے میں  اقتصادی بحران بڑھ گیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ  عالمی سیاست میں 18 ویں صدی کی دوسری دھائی میں  اپنی طاقت کو سامنے لانے والا روس کبھی بھی اقتصادی لحاظ سے سپر طاقت نہیں بن سکا تھا ۔ اسوقت بھی روس  اقتصادی بحران سے دوچا ر  ہے اور وہ  اس سے بخوبی آگاہی رکھتا ہے ۔ لیکن وہ موقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر یقین رکھتا ہے ۔  یہ کہا جا سکتا ہے کہ روس ایک سپر طاقت کے طور پر اپنے وجود کو برقرار رکھے گا یا پھر اس میں ناکام ہو جائے گا ۔ ناکامی سے بچنے کے لیے روس اندرون ملک اور بیرون ملک اپنی طاقت  کی دھاک بٹھانا  چاہتا ہے ۔روس کے نکتہ نظر سے  مشرق وسطیٰ  کےدوسرےاہم پہلو   کا تعلق روس کا  15 میلین مسلم نفوس  کا مالک ہونے سے ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ  داعش میں شامل ہونے والے جنگجوؤں کی اکثریت کا تعلق روسی مسلمانوں سے ہے ۔  مسلمان نفوس کیوجہ سے روس مشرق وسطیٰ  پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے  ۔ وہ مشرق وسطی کے حالات  سے لاتعلق نہیں رہنا چاہتا  کیونکہ وہ اپنے آپ کو علاقے سے قریب تر سمجھتا ہے ۔روسی سیاسی اشرافیہ مشرق وسطیٰ   میں فعال قوت بننے  کی کوشش میں ہیں لیکن وہ 1990 کے بعد امریکہ کی علاقے میں موجودگی جیسی صورتحال نہیں چاہتے ۔ ان کے خیال میں ایسے حالات  روس کے لیے مشکلات   کا سبب بنیں گے ۔ ایران کی اتحادی  اسد انتظامیہ کو امداد اور حمایت   کرتے ہوئے  روس نے  علاقے میں اپنے وقار کو ٹھیس پہنچانے والا قدم اٹھایا ہے ۔ روسیوں کیمطابق موجودہ روس  اہم موقع فراہم کرتا ہے اگرچہ  شام میں مداخلت کیوجہ سے اس کے وقار کو نقصان پہنچا ہے لیکن اس کے باوجود  روس نے علاقے کے اہم ممالک کیساتھ 2000 کی دھائی اور بعد میں تعمیری اور  مضبوط تعلقات قائم کیے ہیں ۔ ترکی کیساتھ بھی روس کے اچھے تعلقات موجود تھے لیکن   فضائی حدود کی خلاف ورزی کیوجہ سے ترکی کیطرف سے روسی طیارے کا مار گرانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں اسوقت سرد مہری  پائی جاتی ہے  لیکن خیال کیا جاتاہے کہ یہ زیادہ عرصہ جاری نہیں رہے گی ۔۔اسوقت ترکی اسرائیل اور ایران کیساتھ اچھے تعلقات قائم کیے ہوئے ہے ۔

 اسد انتظامیہ کی حمایت کیوجہ سے ایران اور روس کے درمیان گہری قربت پائی جاتی ہے ۔ترکی کے اسرائیل کیساتھ مثبت تعلقات پیدا ہو گئے ہیں ۔علاوہ ازیں ، ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری رقابت ایران کے حق میں موقف اپنانے   کا سبب نہیں بنی ۔ مختصراً یہ کہ روس اور ایران کے درمیان   مخلصانہ تعلقات موجود نہیں ہیں ۔  ان کے درمیان محل وقوع کی ضروریات کے پیش نظر  روابط موجود ہیں   ۔نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے  کہ رو س مشرق وسطیٰ میں  امریکہ کیساتھ رقابت کرنے اور اسے علاقے سے دور رکھنے کا کوئی مقصد نہیں رکھتا ہے ۔وہ  امریکہ کو مشترکہ مسائل  کیخلاف مل جل کر جدوجہد کرنے  والے ایک حلیف کی نظر سے دیکھتا ہے لیکن حصہ داری  کے دوران وہ  اپنے مفادات کو  اولیت دیتا ہے ۔



متعللقہ خبریں