شینگین کا حصہ بننا ہماری ملکی بقا سے اہم نہیں: ابراہیم قالن

صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کا شینیگین معاہدے اور ترکی سے مطلوبہ شرائط پر ایک تفصِلی جائزہ

490593
شینگین کا حصہ بننا ہماری  ملکی بقا سے اہم نہیں: ابراہیم قالن

ایوان صدر کے ترجمان ابراہیم قالن کا کہنا ہے کہ حکومت کا اٹل فیصلہ ہے کہ  شینگین ویزے کی  معافی ترکی کی بقا اور اس کی سلامتی   کے اہداف کو در پیش خطرات سے زیادہ اہم نہیں ہے ۔

  یورپی یونین کی طرف سے بلا ویزہ یورپی سیاحت کی شرط کے خلاف ترکی   سے  انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں  میں نرمی پیدا کرنے کے مطالبے  پر امکان ہے کہ  ترکی یورپی یونین معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے  جس کا نتیجہ  ترکی کی یورپی یونین میں  شمولیت کی راہ میں دشواری  اور مہاجرین کے مسئلے پر   معاہدہ ختم ہونے کی صورت  میں ہمارے سامنے آسکتا ہے۔

کئی مہینوں سے جاری  مذاکرات کے بعد  ترکی اور یورپی  یونین کے درمیان ترک شہریوں کی بلا ویزہ یورپ سیاحت کا امکان نمودار ہوا تھا  جس کے جواب میں   شامی پناہ گزینوں کی آباد کاری اور ان کے تبادلے کی شرط رکھی گئی تھی ۔

 ان شرائط  کے احترام  کی صورت میں  ترک اور یونان کے درمیان  مہاجرین  کی  غیر قانونی آمدو رفت  قدرے کم  ہوئی۔اگرہم گزشتہ اکتوبر کے مہینے پر نظر ڈالیں تو  معلوم ہوتا ہے کہ  غیر قانونی تارکین وطن کی  یہ تعداد یومیہ 5  ہزار سے زائد   تھی  جو کہ اب کم ہوتےہوئے یومیہ  ایک سو افراد تک محدود ہو گئی ہے۔

شام کی جنگ  اور مہاجرین  کا مسئلہ  سنگین صورت حال اختیار کرنے  کی  صورت میں  یہ معاہدہ طےکیا گیا جس   کے بعد اب  یورپی  شہروں میں  غیر قانونی تارکین وطن     شاذو نادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

 ترک  شہریوں   کے لیے بلا ویزہ یورپی سیاحت     کی شرط پر   متفقہ فیصلہ  سن 2013 میں کیا گیا تھا جس پر  عمل درآمد کےلیے اس سال اکتوبر کا مہینہ طے کیا گیا  جسے بعد میں نیک نیتی کی بنیاد پر  جون  میں تبدیل کر دیا گیا تھا  البتہ  اگر یورپ کا خیال ہے کہ وہ اس شرط  کی منظوری کے نتیجے میں  ترکی سے من مانی کروائے گا   تو اسے  یہ کڑوی گولی نگلنے سے پہلے ذرا  سوچنا پڑے گا۔

 ترکی کا موقف ہے کہ یورپی یونین نے بلا ویزہ اس شرط کے بہانے  ملکی معاملات میں مداخلت کا ارتکاب کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں میں  لچک پیدا کرنے کی جو تجویز  رکھی ہے وہ کسی قیمت پر  ناقابل قبول ہے ۔ ترکی عرصہ دراز سے شینگین  معاہدے کا حصہ بن سکتا تھا ۔اس  سہولت  سے لاطینی امریکہ  اور خلیجی ممالک استفادہ حاصل کر سکتے ہیں مگر ترکی کو   اس سہولت سے محروم  رکھنا  سمجھ  سے بالا تر ہے ۔ یورپی ممالک  سے ترکی کا کسٹم معاہدہ ہے اور وہاں  تقریباً 5 ملین  ترک نژاد آباد ہیں  لیکن   شینگین  میں  ترکی کا نام لیتےہی یورپی  کرتا دھرتاوں       کو چپ سادھ جاتی ہے جو کہ ایک غیر منصفانہ طرز عمل کے سوا اور کچھ نہیں۔

اس پر کجا  ترکی سے دہشت گردی کی  پالیسیوں میں نرمی پیدا کرنے کا مطالبہ  یورپ کی  ڈھٹائی اور اس کی  ہٹ دھرمی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔  راقم کا ماننا ہے کہ  اگر اس مسئلے    کو  یورپی یونین کے ساتھ  رکنیت کے موضوعات میں شامل کیا جاتا تو  اس پر بحث   کرنا   کسی اچنبھے کیبات نہیں ہوتی مگر  اس   مطالبے کو  پیشگی شرط کے طور پر  حکومت ترکی کے سامنے رکھنا  میرے خیال میں   ایک نازیبا سیاسی حربے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

اس کی وجہ واضح  اور  سادہ  ہے۔  ترکی،   PKK، داعش ،   انقلابی  عوامی  نجات  پارٹی  محاذ  اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف     جدوجہد  میں مصروف ہے۔  گزشتہ 8 ماہ بھر کے دوران ان دہشت گرد تنظیموں کے حملوں  میں    ترکی     کو  400 سے زائد   سیکورٹی اہلکاروں اور  شہریوں کی  جانوں کا نقصان  برداشت کرنا پڑا ہے، تو   اس دوران سینکڑوں  دہشت گرد بھی   مارے گئے ہیں۔  محض  گزشتہ روز   ہی   PKK   نے      چھ ترک فوجیوں کو شہید کر ڈالا، جبکہ دیگر دو فوجی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں  جان بحق ہو گئے۔   PKK    نے ، دیار  باقر،   حقاری، ماردن،  انقرہ اور استنبول میں      سیکورٹی قوتوں اور  شہریوں    کے خلاف  حملے  کیے۔  داعش   کے عسکریت  پسندوں  نے   بھی ترک اہداف کو نشانہ  بناتے ہوئے  بیسیویوں معصوم  انسانوں  کو موت کے منہ میں دھکیل  دیا۔   کیلیس    شہر   شام سے    داغے جانے والے  داعش کے راکٹوں  کے حملوں   کا نشانہ بن رہا ہے۔

ترکی چاہے اس کے  اتحادی، امریکہ اور یورپی یونین       اس کی    مدد کریں یا نہ کریں   دہشت  گردوں کے خطرات کے خلاف جنگ کرنے میں پُر عزم ہے۔  یہاں پر اصل مسئلہ کچھ یوں  ہے: ملک کو   اس حد تک سیکورٹی    کے  خطرات  ،شام جنگ، داعش، مہاجرین کا بحران اور  دوبارہ زور پکڑنے والی PKK  کی  دہشت گردی    کا سامنا ہے تو    یورپ  کس منہ سے  ترکی   سے انسداد ِ دہشت گردی  قانون   میں ترمیم  کی توقع  کر سکتا ہے۔

آیا کہ یورپی یونین       اسی   طرح کے مطالبات ، پیرس اور برسلز کے  دہشت گرد حملوں   کے بعد     سخت  حفاظتی اقدامات کرنے والے فرانس اور  بیلجیم سے     بھی    کر سکتی ہے؟ اس چیز پر بحث  بھی نہیں   کھڑی کی جا سکتی۔  ہم ان ملکوں     کی ہر طرح کی دہشت گردی  کے خلاف جدوجہد کی حمایت  کرتے ہیں،  تا ہم     دہشت گردی   کے خلاف اپنی  جدوجہد میں   یہ چاہے   PKK ہو یا پھر داعش  ،  ہمارے  مغربی اتحادیوں سے ا سی قسم کی حمایت کی  توقع رکھنا  ہمارا حق  ہے۔

یورپی شہروں میں   PKK سے تعلق ہونے والے    درجنوں  گروہ  آزادانہ طور پر  پر   اپنا پروپیگنڈا  کرتے  پھر رہے   ہیں  ، یہ   دہشت گردوں  کو   تنظیموں میں شامل  کرتے ہوئے مالی اعانت   جمع کرتے رہتے ہیں۔ جمع کردہ رقوم کو  PKK کو بجھواتے ہیں۔   ایک جانب یہ  صورتحال ہے تو دوسری جانب  یورپی ملک   ترکی  پر  دہشت گردوں  کے حوالے  سے  دباو ڈالنے کی بجائے     اپنے  اپنے ملکوں       میں موجود  دہشت گردوں   کے خلاف     مخلصانہ   کاروائیاں کرنے پر مجبور ہیں۔

ذرا  غور کریں     اگر   ترکی  یا پھر کوئی دوسرا   اسلامی ملک    اپنی سر زمین پر القاعدہ اور داعش سے تعلق  ہونے والے   گروہوں  کو  شہری تنظیموں یا پھر این جی اوز   کے بھیس میں   پروپیگنڈا کرنے  اور    ان  میں شمولیت        کرنے اور   دہشت گرد تنظیموں کے لیے چندہ جمع کرنے  کی اجازت  دیتا تو پھر کیا   ہوتا۔

ترکی   روڈ میپ پر  عمل درآمد اور مہاجرین کے بحران کو      کنٹرول میں لینے کے معاملات میں مدد گار  ہونے کا متمنی   ہے۔

شینگن    زون  میں  سیر و سیاحت کے لیے ویزے  کی چھوٹ کا مطالبہ   اسی سلسلے کا ایک  فطری  عنصر ہے۔

تا ہم اسے  ترکی کی قومی سلامتی     کے لیے اولیت کے حامل       معاملات    کے  سامنے شرط کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

یورپی یونین    کو     ذی فہم     طور پر   ترکی اور یورپ  میں موجود  دہشت گرد گروہوں اور ان کے حمایتیوں    کی حوصلہ    افزائی کر سکنے والے  نئے قانون  کے اجرا کے مطالبے کے بجائے   ترکی کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  اس کی معاونت کرنی چاہیے۔  

 

 



متعللقہ خبریں