ترکی کا اُفقِ نو ۔ 09

لسان بنی نو انسانوں کو عطا کردہ سب سے بڑی دولت ہے

442453
ترکی کا اُفقِ نو ۔ 09

کونفیچوئس کا ایک مشہور قول پایا جاتا ہے، " اگر آپ کسی ثقافت ، مذہب یا پھر عقیدے کو ختم کرنا چاہتے ہیں توآپ اس کے خلاف جنگ چھیڑنے کے بجائے وہاں نظریاتی افراتفری مچا دیں۔"

در اصل ہم یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ اس قول کا تعلق کونفیچوئس سے ہی ہے کہ نہیں تا ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ انسانوں کے ذہنوں پر منفی اثرات پیدا کرنے والے طریقوں میں سے ایک نظریاتی اختلاف پیدا کرنا ہے۔

نظریاتی اختلاف و افراتفری نظریات کی بنیادوں کو دور ہٹاتے ہوئے اس کی جگہ نفسی چیزوں کو شامل کرنے پر مبنی ہے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ لسان بنی نو انسانوں کو عطا کردہ سب سے بڑی دولت ہے۔ لوگ بیرونی دنیا میں لسان کے ذریعے مداخلت کرتے ہیں ۔دوسرے لوگوں کو سمجھتے اور ان کے بارے میں اپنی اپنی سوچ کو بیان کرتے ہیں۔

میں یہاں پر لسانی فلسفے پر بحث کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تا ہم تصورات پر مبنی مفہوم اور ہمارے ذہنوں میں شکل پانے والی علامتوں اور اشیاء کے درمیان ایک وسیع پیمانے کا فرق انسانی وجود کو کھونے کا مفہوم رکھتا ہے۔

حتیٰ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نظریے اور اس کی اشارہ کردہ چیز کے درمیان غیر ہم آہنگی انسانوں کے لیے ایک وجوداتی مسئلہ ہے۔

انسان کا کائنات کے ساتھ قائم کردہ تعلق در اصل محض جاننے کی حد تک نہیں ہوتا، بلکہ آپ کو اس کو سمجھنا بھی ہو گا۔

ہم اپنی ثقافت ، ٹیکنالوجی اور حتی دین کے ہماری زندگیوں میں مقام کا انہی نظریات کے ساتھ تعین کرتے ہیں۔ یعنی نظریے اور چیزوں کے درمیان تعلق غیر واضح اور ماورا ہوتا ہے۔

میرے اُستاد اور بزرگ امام غزالی نے نظریے تصور اور اصلیت کے درمیان علت کے رابطے پر یقین رکھنے والے ایک انسان کے طور پر مذہبی بگاڑ کو دور ہٹانے کے لیے دینی بنیادی اصولوں کو نئے سرے سے جانبر کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے " بحالی" کی حاجت کو بیان کیا تھا۔

آج بھی ہمیں اسی قسم کے نظریاتی اختلافات کا سامنا ہے۔ روزہ مرہ کی زندگی سے متعلق شعبوں میں نظریاتی اختلافات کا کچھ زیادہ اثر نہیں بھی ہو سکتا تا ہم زندگی سے متعلق نقطہ نظر کا تعین کرنے والی بنیادوں میں پیدا ہونے والے اختلافات گہرے زخموں اور تفریق بازی کا موجب بن سکتے ہیں۔ آج ہمیں جس قسم کی دہشت گردی کا سامنا ہے کے ایک اہم پہلو کے اسی شعبے سے متعلق ہونے کا کہنا ایک بے جا سوچ نہیں ہو گا۔

دہشت گرد تنظیمیں اور ان کے پیچھے کار فرما عناصر اولین طور پر انسانی ذہنوں میں موجود حقائق کا قتل کرنے کے بعد اپنے جھوٹ موٹ کےقوانین کو ان کے ذہنوں میں سرایت کر دیتے ہیں، یہ قوانین انسانوں کی سوچ میں پس پردہ بعض کائناتی نظریات سے تعلق رکھتے ہیں۔

PKK دہشت گرد تنظیم، جیسا کہ ایک نامور ناول نویس جیورج اورویل کی جانب سے سن 1984 نامی ناول میں ذکر کیا ہے کہ یہ " نئی تصوارتی لسان" کو تشکیل دیتے ہوئے خونی سنیاریو کھینچنے کے درپے ہے۔

اس کا مختصر نام جنگ ہےاور علاقائی انسانوں کی زندگیوں ، عقیدیوں ، اقدار اور ان کے وجود کو کوئی وقعت نہ دینے والا ایک نظام ہے۔

دوسرے الفاظ میں یہ تنظیم زیادہ تر خفیہ معلومات اور کردوں کو آلہ کار بنا رہی ہے۔

PKK دہشت گرد تنظیم نہ صرف انسانوں کے خلاف تکلیف دہ حملے کر رہی ہے بلکہ بیک وقت یہ ذہنوں کو برباد کرنے والی کسی حکمت ِ عملی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

مذکورہ تنظیم اور اس کے عناصر جس چیز کو سب سے زیادہ آلہ کار بناتے ہیں وہ ڈیموکریسی ہے اور یہ نظریہ صرف تقریروں اور خطابات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تنظیم اور اس کے عناصر اپنے تمام تر متنوں میں تقریروں میں ڈیموکریسی کا ہی واہ ویلا مچاتے ہیں۔

یہ ہر جملے میں جمہوریت اور امن کے نظریے کو بیان کرتے ہوئے اصلیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور اپنے گھناونے چہرے پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔

ہر کس کے بلا مشروط اپنے وجود اور شخصیت کے مطابق اپنے ارادے اور وجود کو اسلحہ کے زور پر منوانا ایک غیر جمہوری فعل ہے۔



متعللقہ خبریں