کوچہ فن و ادب - 49

پاکستان کے میڈیا شاپنگ مال میں آج کل بلا کی گرم بازاری ہے۔بہت سی دُکانوں پر سوفیصد تک سیل کے اشتہار آویزاں ہیں۔پہلے’’ آیئے ، پہلے پایئے، دو کے ساتھ دو مفت‘‘ کا غُل ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔سب سے زیادہ رَش ’’مرغ لڑانے والوں"کی دُکانوں پر ہے

407975
کوچہ فن و ادب - 49

پاکستان کے میڈیا شاپنگ مال میں آج کل بلا کی گرم بازاری ہے۔بہت سی دُکانوں پر سوفیصد تک سیل کے اشتہار آویزاں ہیں۔پہلے’’ آیئے ، پہلے پایئے، دو کے ساتھ دو مفت‘‘ کا غُل ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔سب سے زیادہ رَش ’’مرغ لڑانے والوں"کی دُکانوں پر ہے۔اِس ہائو ہو میںکسی نیکر والے کی اپنی نیکر اورکسی ٹوپی والے کی اپنی ٹوپی سنبھالے نہیں سنبھلتی ہے۔جس کسی کے ہاتھ یہ’’ نیکر‘‘ لگتی ہے وہ اس نیکر کے پردے میں بھی عریاںدکھائی دیتا ہے اور جس جس کو بھی یہ ٹوپی پہنا دی گئی ہے وہ گلیوں اور بازاروں میںرقصِ غولِ بیابانی میں مگن ہے۔ احمد فرازکی نظم ’’دوسری ہجرت‘‘ یاد آتی ہے۔
جتنے تھے رَم خوردہ بُت ، اصنامِ طلائی
اپنی اپنی مسند پر آ بیٹھے ہیں
سچ کا لہو اُن کے قدموں میں
عنابی قالین کی صورت بچھا ہوا ہے
کمخوابی خیموں کے اندر
بزمِ حریفاں پھر سجتی ہے
کذب و ریا کی دَف بجتی ہے۔
کذب و ریا کے اِس موسم میں سچ کی خوشبواورہذیان کی بدبومیں تفریق مشکل ہوگئی ہے۔یہ آگ کس نے لگائی ہے؟ اور اس آگ میں کون کون بھسم ہو سکتا ہے؟ اس آگ کو ہوا دینے والی نیکروں اور ٹوپیوں کو بھی اس کاادراک ہے کہ نہیں؟چند ٹکوں اورکرسیوں کے لالچ میں میڈیا کو تقسیم کرنے والے نہیں جانتے کہ میڈیا کی کمزوری جمہوریت کی کمزوری ہے۔ سول سائٹی اور سیاسی جمہوری پارٹیوں کو کھل کر سامنے آنا ہوگا اور ’’شاہ دولہ کے چوہوں ‘‘ کو جمہوریت کی جڑیں کاٹنے سے باز رکھنا ہو گا۔
موجودہ صورتحال سے خود میڈیا کو بھی بہت کچھ سیکھنا چاہیے اور ایک ذمہ دار میڈیا کے طور پر برسوں کی جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونے والی آزادی کے تحفظ کے لیے اپنے کردار پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ میڈیا مالکان کی سب سے اہم اور فعال تنظیم آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) گزرتے وقت کے ساتھ خاصی کمزور ہوئی ہے۔ پہلے اس تنظیم کے صدر میر خلیل الرحمٰن اور سیکرٹری مجید نظامی ہوا کرتے تھے۔پھر یہی تسلسل میرشکیل الرحمٰن ، حمید ہارون ، عارف نظامی اور مجیب الرحمٰن شامی تک جا ری رہا لیکن اب اس تنظیم کے عہدیداران مختلف اداروں کے مارکٹنگ ہیڈز بنائے جاتے ہیں۔ جس کا مالی بنیادوں پر یقینی طور ان اداروں کو فائدہ ہوا ہو گا لیکن موجودہ بحران کی شکل میں پہلے کبھی کوئی مشکل آتی تھی تو ادارتی پس منظر رکھنے والے اے پی این ایس کے عہدیداران فوری طور پر سر جوڑ کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے مشکل سے دوچار ادارے کو بچانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اے پی این ایس ، سی پی این ای اور پی بی اے کو ایک بار پھر پہلے کی طرح فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح مالکان کی تنظیم سے ہزار اختلافات کے باوجود پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یوجے)بھی ہمیشہ بحران سے دوچار میڈیا گروپوں کے ساتھ کھڑی ہو جاتی تھی ۔لیکن بدقسمتی سے اب یہ تنظیم بھی تقسیم درتقسیم کی صورتحال سے دوچار ہے اوراپنے ساتھیوں کے روزگار کولاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اے پی این ایس اور پی ایف یوجے کو اس نہج تک پہچانے میں دانستہ یا نادانستہ میڈیاہائوسز نے اہم کردار ادا کیا ہے۔حالانکہ یہ دونوں تنظیمیں مالکان ، عامل صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے ساتھ ساتھ میڈیا ہائوسز کے لیے بھی ایک ڈھال کی طرح تھیں۔ہمیں اپنی ڈھال کو پھر سے مضبوط کرنے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ میڈیا ہائوسز کو تقسیم کرنے کے بعد کہیں صحافیوں اور میڈیا کارکنوںکی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش تو نہیں کی جارہی؟صحافت کسی بھی ریاست کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے۔اگر اس ستون کو گرانے کی کوشش کی گئی تو اسے ریاست کو گرانے کے مترادف سمجھا جائے گا۔آج اگر کچھ عاقبت نااندیش یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ایک میڈیا گروپ کا گلا گھونٹ کرانہیں زیادہ سانس لینے کا موقع ملے جائے گا تو یہ اُن کی بھول ہے ۔کوئی کوتاہ قامت اگر یہ سمجھتا ہے کہ کسی کی خوش قامتی کو دُشنام دے کر اپنے قدوکاٹھ میں اضافہ کر لے گا تویہ اس کی کوتاہ بینی ہے۔
میں آج زَد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بُجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں