عالمی ایجنڈا۔141

344068
 عالمی ایجنڈا۔141

 تین ستمبر 2015 میں عالمی پریس میں شائع ہونے والی ایک تصویر نے پوری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ۔ شام کی خانہ جنگی سے فرار ہو کر یورپ میں پناہ لینے کے خواہشمندمہاجرین کی کشتی سمندر میں غرق ہو گئی اور اس میں سوار ایک خاندان کے تین سالہ بچے عائلان کی لاش ترکی کے علاقے بودروم کے ساحل سے آ ٹکرائی۔اس تصویر کو اخبارات میں دیکھ کر انسانوں کے دل پاش پاش ہو گئے اورمہاجرین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ممالک پر دباؤ بڑھ گیا ۔ مہاجرین کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے لیکن حالیہ دنوں میں اس مسئلے نے ایک المئیے کی شکل اختیار کر لی ہے ۔عالمی ذرائع ابلاغ اس مسئلے کو بے حد اہمیت دے رہے ہیں۔شام اور عراق کی خانہ جنگی سے فرار ہونے والے ہزاروں مہاجرین تحفظ کیساتھ زندگی بسر کرنے والے ممالک ہجرت کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ وہ اپنے ہدف کو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔
مہاجرین یا غیر قانونی تارکین وطن اپنی مرضی سے اپنے ملک کو ترک نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ خانہ جنگی سے بچنے کے لیے اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے اپنے گھر بار ترک کر رہے ہیں ۔ جنگ اور انتشار کے چنگل میں پھنسے ہوئے انسان بعض اوقات مخالفین ہونے بعض اوقات محارب فریقن کے درمیان پھنس جانے اور بعض اوقات زبردستی ہجرت پر مجبور کیے جانے کی وجہ سے در بدر ہو رہے ہیں ۔ ان انسانوں کا اولین ہدف محفوظ ممالک میں پناہ لینا ہے ۔ شام اور عراق کےمہاجرین ترکی ،اردن اور لبنان جیسے ہمسایہ ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ ان تینوں ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین موجود ہیں ۔ ترکی میں شامی مہاجرین کی تعداد دو میلین تک پہنچ گئی ہے ۔ ترکی نے ان مہاجرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 6 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں ۔
اس حقیقت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ مشکل حالات سے دوچار انسانوں کو پناہ دینے کی ذمہ داری صرف ہمسایہ ممالک پر عائد نہیں ہوتی بلکہ اقتصادی لحاظ سے ترقی یافتہ مغربی ،یورپی ،ایشیائی اور دیگر ممالک کو بھی مشکلات سے دوچار ان انسانوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے ۔شام اور عراق کی خانہ جنگی میں کردار ادا کرنے والے اقوام متحدہ کے تمام ممالک کو خانہ جنگی کے سماجی نتائج میں بھرپور طریقے سے حصہ لینا چاہئیے۔
جغرافیائی لحاظ سے قریب ہونے والے یورپی ممالک اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ انھوں نے اپنے دروازوں کو مہاجرین کے لیے بند کر دیا اور ان کے مسائل میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہ لی ۔ ان کی اس بے حسی کے نتیجے میں مہاجرین جان کا خطرہ مول کر خاصکر بحیرہ روم کے راستے غیر قانونی طریقے سے ان ممالک میں داخل ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ ہجرت کے مسئلے کےدوسرے پہلو کا تعلق ہجرت کے عمل ہے ۔تین سالہ عائلان کیطرح ہجرت کے دوران موت کی آغوش میں جانے والے سینکڑوں انسان موجود ہیں۔ ہر انسان کا سفر ایک المئیے سے کم نہیں ہے ۔یہاں پر اہم مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں اور حفاظتی قوتیں بھی ہجرت کی روک تھام کے لیے اہم قدم نہیں اٹھا رہی ہیں ۔ متعلقہ ممالک ، یورپ اور یورپی یونین کے ممالک نے مہاجرین کی پالیسی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور پیش آنے والے المیات کی روک تھام کے لیے تدابیر اختیار نہیں کی ہیں ۔ یورپی یونین کے ایک رکن ملک کے وزیر کا یہ بیان کہ ہم مسلمان مہاجرین کو پناہ نہیں دینا چاہتے انتہائی افسوسناک ہے ۔مہاجرین کے سنگین مسائل کے باوجود ابھی تک جرمنی برطانیہ اور فرانس مہاجرین کی آمد کے معاملے پر بحث کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مہاجرین کا مسئلہ اور پیش آنے والے واقعات سماجی مسئلہ نہیں رہیں گے ۔ مہاجرین کے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں ناکام یورپی یونین میں اب شینگن معاہدے اور اس پر عمل درآمد پر نظر ثانی پر بحث شروع ہو گئی ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ مہاجرین کا مسئلہ صرف مہاجرین کا مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ اس مسئلے نے مہاجرین کے مسئلے کے منبع ممالک شام اور عراق ،اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہنے والی یورپی یونین ،عالمی ایکٹرز اور پورے عالم انسانیت کے مسئلے کی حیثیت حاصل کر لی ہے ۔شامی نوجوان مہاجر کنعان نے دنیا کو جو پیغام دیا ہے وہ انتہائی معنی خیز ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ جنگ کو روکیں ہم آپ کے ملک میں نہیں آنا چاہتے ۔ انھوں نے تمام ممالک سے مہاجرین کے بحران کی وجہ کو سمجھنے،بحران کو حل کرنے اور شام کی خانہ جنگی کو روکنےکی اپیل کی ہے ۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سیاستدان اس اپیل پر کان دھریں گے یا نہیں لیکن شام کے مسئلے اور دیگر علاقائی مسائل کو حل نہ کرنے سے نہ صرف ہمسایہ ممالک اور علاقائی ممالک بلکہ یورپ کے لیے بھی خطرہ پیدا ہو جائے گا ۔ موجودہ حالات میں ممالک کی سلامتی کو نہ صرف فوجیوں اور فوج سے خطرات سے لاحق ہیں بلکہ انھیں سماجی مسائل اور مہاجرین سے بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ ممالک کی سلامتی اور امن و استحکام انسانی سلامتی کے معیار سے وابستہ ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں