عالمی ایجنڈا۔ 139

370442
عالمی ایجنڈا۔ 139

امریکہ کے صدر باراک اوباما کے فرائض کی مدت کے خاتمے میں ایک سال سےزائد عرصہ باقی ہے لیکن ابھی سے ان کی پالیسیوں پر بحث و مباحثہ شروع ہو گیا ہے ۔ خارجہ پالیسی میں ان کی کارکردگی بحث کا اہم ترین موضوع ہے ۔ ان کی خارجہ پالیسی کامیاب رہی ہے یا ناکام یہ موضوع ایجنڈے میں شامل ہے ۔ انھوں نے 2009 میں برسراقتدار آنے کے بعد کون سے اہم قدم اٹھائے ہیں اور وہ ان میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں ۔ بعض مثالیں دیتے ہوئے اس سوال کا جواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خارجہ پالیسی کا عمومی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر اوباماکی خارجہ پالیسی سابق انتظامیہ کے اصولوں سے مختلف ہے ۔اگر سابق صدر جارج بش کے 2000 سے لیکر 2008 تک دور سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صدر اوباما نے عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے عالمی اور علاقائی ایکٹرز کیساتھ تعاون کی پالیسی کو ترجیح دی ہے ۔ اسکی واضح مثال 5+1 کیساتھ مل کر ایران کیساتھ جاری ایٹمی مذاکرات سے ملتی ہے۔ صدر اوباما نے یوکرین اور افغانستان کے مسائل، عالمی اقتصادی بحران ،نیٹو کی تجدید نو ، بین الاقوامی ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے دیگر سپر طاقتوں کیساتھ مل کر فیصلے کیے ہیں ۔ اگر چہ ان مسائل کے حل میں ایران کے ایٹمی مذاکرات کیطرح کامیابی نہیں ہوئی ہے لیکن بین الاقوامی تعلقات میں مزید مثبت ماحول پیدا کرنے میں مدد ملی ہے۔صدر اوباما نے صدر بش کی دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کی پالیسی میں بھی تبدیلی کی ہے ۔انھوں نے افغانستان، عراق اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کی پالیسی کو تبدیل کر دیتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور اسلامی ممالک کے بارے میں پائے جانے والے دہشت گردی کے مفروضوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھیں اس پالیسی میں کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔خاصکر شام اور عراق میں منظر عام پر آنے والی دہشت گرد تنظیم داعش نے اوباما کی پالیسیوں کو نقصان پہنچایا ہے ۔مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔

صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کی کارکردگی کا اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے تاریخی اہمیت کے حامل بحرانوں اور مسائل کے بارے میں ریڈیکل فیصلے کیے ۔اس سلسلے میں تین اہم مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔مریکہ کی تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات پر مہر ثبت کرنے والے ان تین اہم واقعات کا تعلق ایران کے ایٹمی معاہدے جس سے ایران اور امریکہ کے 35 سالہ بحران کے خاتمے ،کیوبا پر عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے فیصلے سے 50 سالہ مسئلے کو حل کروانے اور بہار عرب کو ہوا دینے میں کردار ادا کرتے ہوئے ایک سو سالہ علاقائی سسٹم کو تبدیل کروانے سے ہے ۔صدر اوباما اپنے ایجنڈے کے چوتھے معاملے یعنی مسئلہ فلسطین کو حل کروانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں ۔صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کی مزید مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں لیکن وہ زیادہ اہم نہیں ہیں ۔

صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کی ناکام اور تاریخ میں رقم کی جانے والی مثالیں بھی موجود ہیں ان میں مصر اور شام کی پالیسیاں سر فہرست ہیں ۔ صدر اوباما بہار عرب شروع کروانے میں مثبت کردار کے باوجود ہواؤں کے رخ موڑ لینے کو روکنے میں ناکام رہے ۔ وہ مصر میں فوجی انقلاب کیخلاف موثر کردار ادا نہ کر سکے ،اسد انتظامیہ کی جارحیت کو نہ روک سکے اور لیبیا، یمن اور عراق کے مسائل کو حل کروانے میں ناکام رہے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ داعش کے معرض وجود میں آنے اور اس کی پیش قدمی کو نہ رکوا سکے ۔امریکی انتظامیہ نے اگست 2014 میں داعش کیخلاف چار مرحلوں پر مبنی جدوجہد کی حکمت عملی کا جو اعلان کیا تھا ان فیصلوں کا تعلق داعش کیخلاف فضائی کاروائی کرنے،مقامی قوتوں کیساتھ تعاون کرنے، داعش کے مالی وسائل کو منقطع کرنے اور سرحد ی کنٹرول کو بڑھانے سے تھا لیکن اگر اس وقت صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تدابیر فی الحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی ہیں ۔ داعش ابھی تک شام اور عراق میں اپنی سر گرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔بلاشبہ ان ناکامیوں میں دیگر اتحادی ممالک کا بھی کردار ہے لیکن اتحادی سٹریٹیجی پرموثر شکل میں عمل درآمد نہ کروانے میں اوباما کی کمزوری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ تمام مسائل ایران کیساتھ ایٹمی معاہدے میں کامیابی کے زیر سایہ آ گئے ہیں ۔ اگر ایران کیساتھ معاہدے پر عمل درآمد میں کامیابی ہوئی تو دیگرمسائل کو حل کرنے میں آسانی ہو جائے گی ۔یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ معاہدے سے امریکہ اور ایران کے تعلقات کے فروغ کی عکاسی دیگر علاقائی مسائل پر بھی ہو گی ۔اندازے کیمطابق ایران اور امریکہ کے تعلقات کا فروغ دیگر مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ موقع فراہم کرئے گا جس سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کی پرفارمینس پر مثبت اثرات مرتب ہونگے ۔
ان مواقع کی تشکیل اور انھیں کامیاب بنانے میں علاقائی ممالک کو بھی اس عمل کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ترکی ، عراق اور متعدد ممالک نے امریکی معاہدوں کی واضح الفاظ میں حمایت کی تھی لیکن سعودی عرب ،خلیجی ممالک اور اسرائیل کو بھی اس عمل میں شامل ہونے کی ضرورت ہے ۔ ایران کے معاہدے سے مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے اس معاہدے کو علاقائی اور عالمی سطح پر پھیلانے کی توقع کی جاتی ہے ۔
صدر اوباما کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے والی آخری مثال شام کی جنگ کو ختم کروانے میں اوباما کا کردار ہو گا ۔ داعش اور پی کے کے جیسی دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں پر عزم موقف سے علاقے میں صدر اوباما کے امیج پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ ایران اور کیوبا میں امن معاہدوں کے بعد شام میں صدر اسد کو ہٹاتے ہوئے امن کا قیام اوبا ما کی خارجہ پالیسی کو بلندیوں تک پہنچا دے گا ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں