دو براعظم ایک شہر استنبول

دو براعظم ایک شہر استنبول محمد حسین کے قلم سے

310435
دو براعظم ایک شہر استنبول

استنبول نے یونانیوں بازنطیفوں مصریوں سلجوقیوں، مغلوں اور ترکوں کے ادوار دیکھے 1330 ء میں دالحکومت بنا ۔ استنبول ایک شہر جو مختلف ادوار سے گزرا، جسے کبھی لائگوس، تو کبھی بائزنٹیم ، کبھی "نیاروم" تو کبھی کونٹسنٹیول کہا، مسلمانوں کا دور آیا تو قسطنطنیہ اور پھر موجودہ استنبول ۔۔۔۔شہر کیلئے یا دنیا کے موجودہ عجائب میں سے ایک۔۔۔۔۔۔شہر عجائب نے بہت سے ادوار دیکھے۔ عیسائیوں کے زیر نگیں رہا تو آیا صوفیاکا وجود میں آنا اورتخلیق کے سارے رنگ اس میں صرف ہوئے۔ اور عثمانی خلفاء کا دور آیا تو محلات سے لے کر مساجد تک ایسے ایسے شاہکار سامنے آنے کہ آج بھی انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ ایک جھومر جو استنبول شہر کے نام سے ترکی کے ماتھے پر سجا ہے۔ اگر ہٹا دیا جائے تو لگے گا ترکی خالی رہ جاتا ہے۔ اور اس شہر کو اگر سمویا جائے تو سلطان احمت سکوائر میں ترک تاریخ ، عمارات، آرکیٹیکچر ، خوبصورتی اور دور قدیم و جدید تمام چیزیں لاجواب ہیں اور کچھ نہیں تو کوئی ذی روح جو ذرا سا بھی ذوق جمال رکھتا ہو۔ اسکی نیلی مسجد سے نظر ہٹا کر دکھائے۔
شہر تو بہت سے ہوں گے دنیا میں مگر استنبول ایک ہی ہے اور یہ وصف بھی اس کے حصے میں آیا کہ دو براعظموں پر پھیلا ہوا یہ شہر یورپ اور ایشیا کو ملاتا ہے۔ جغرافیائی طور پر یورپ اور ایشیا پر پھیلا ہوا۔ اس کو اپنی شناخت کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں یہ دو ہزار سالہ تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور آج بھی آباد ہے۔ یہ وہ شہر کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ آرارات پر رکی جو مشرقی ترکی میں واقع ہے۔ اس طرح یہ شہر اپنے اندر مختلف ادوار اور تہذیبیں سموئے ہوئے ہے۔
کہیں اسلا م اور ایشیاء کا حسن لوگوں اور عمارتوں میں ملتا ہے تو کہیں بھرپور یورپی کلچر اور آزادی ملتی ایک طرف شاپنگ کرنے والوں کے لیے "چھتا بازار" (Covered Market)ہے تو دوسری طرف قیمتی برانڈز شاپس جن مین بہترین یورپی کمپنیوں کی اشیاء ، خوشبو یات اور ملبوسات دستیاب ہیں۔
عمارات اور قدامت اور ایشاء کا انداز اور شاہی انداز دیکھنا ہو تو "ات میدان" اور "سلطان احمد اسکوائر" کا رخ کریں،سلاطین کا محل توپ کاپی سرائے اپنی تمام تر عظمتوں اورایشیاء و یورپ کے ملاپ کےساتھ موجود ہے جہاں سلطنت عثمانیہ ، مشرق اور اسلام کی نشاط ثانیہ کی بے شمار نشانیاں آج بھی تمکنت کے ساتھ محفوظ ہیں ڈولما باغیچہ محل (1856)اور چلی کیوسک محل / سرائے سلطان محمد دوئم (1472)موجد ہے جس کی سجاوٹ میں کئی ٹن سونا اور سفید پتھروں کے امتزاج سے بناوٹ ایسے لگتی ہے جسے سمندر کی لہروں پر عمارت ہلکورے کھا رہی ہو، دو سو پچاس گہرے اور اور تینتالیس ہال اسکی وسعت اور مشرق کے عظیم سلاطین کے ذوق کی گواہی دیتے ہیں۔
مقبرہ سلطان سلیم جو کہ روکسے لانا، یا بعدمیں شہزادی گلبہار بیگم المعروف" حورم سلطان" کے صاحبزادے اور ترکی کے خلیفہ رہے کا مزاربھی یہیں ہے۔
پرانے مکانات اور مشرق و ایشیاء کا سا طرز تعمیر اگردیکھنا ہو تو پرانے لاہور کی طرز کی گلیاں اور محلے بھی مل جاتے ہیں لاہور کا سا طرز زندگی جو ایشیاء میں کیا دنیا میں مشہور ہے اور کہا جاتا ہے جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا بالکل ایسا ہی استنبول کے بارے میں بھی دعوی کیا جا سکتا ہے تاقسم جمہوریت سکوائر کی طرف نکل جائیں تو ایسے لگتا ہے یورپ انگلینڈاور فرانس کے ساتھ مقابلہ ہے۔ قاقسم سٹریٹ جا سکتا ہے۔ ترکی میں سیاسی اجتماعات کے لیے حال ہی میں اس اسکوائر پر لوگوں نے اجتماعات کیے۔
یہاں یورپی خوبصورتی لوگوں میں نیلی آنکھوں اور خوبصورت سرخ و سفید چمکتے چہروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے اور مناظر میں بھی موز پرس پل اور سلطان محمد فاتح پل یورپ و ایشیاء کو ہی نہیں ملاتے بلکہ دو تہذیبوں اور دو جداگانہ انداز زندگی کو بھی یکجا کرتے ہیں، استنبول کے سمندر کا پانی اتنا نیلگوں اور خوبصورت لگتا ہے کہ بڑے سے بڑے سخت دل انسان کا دل موہ لیتا ہے۔ یہ پانی جہاں کہیں دوسرے سمندروں سے ملتا ہے تہذیبوں میں ٹکراو بھی پیدا کرتا ہے اور جہاں اس کے ساحل نزدیک ترین ہیں وہیں کرہ ارض کو براعظموں میں منقسم کرتا ہے۔ گولڈن ہارن یا شاخ زرین جہاں یورپ و ایشیاء کے درمیان فاصلہ بمشکل ڈیڑھ سے دو کلومیٹر ہو گا مگر یہ کم ترین فاصلہ بھی صدیوں کے بعد طے ہوا اور سلطان محمد فاتح کی تدبیر سے خشکی پر سے جہاز سمندر میں ڈالے گئے جسکی مثال دنیا میں نہیں ملتی ۔
اسی استنبول شہر میں مشرق کی تقدیس اور مسلمانوں کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میزبان صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک بھی ہے۔ لوگوں کی روحانی پیاس اور ایشیاء خصوصاً پاکستانیوں کا خاص انداز جو وہ بزرگان دین و اپنے مذہبی اکابرین سے رکھتے ہیں، ملتا ہے۔
استنبول شہر میں ماڈرن یورپ کی طرح ہر طرح کی سہولت موجود ہے۔ تفریحی مقامات اور پل گلنا ٹاور جیسے تاریخی مقامات پر ریسٹورنٹ ، نائٹ لائف اور بے شمار ڈسکو کلب جہاں روشنیوں کی چکا چوند غیر ملکی سیاحوں کو بھرپور تفریح کے مواقع بہم پہنچاتی ہے۔
استنبول شہر کی خوبصورت نیلے رنگ کی ٹرام سیاحوں اور شہریوں کو سہولت کےساتھ ساتھاس چیز کا احساس بھی دلاتی ہے کہ یہ ایک جدید ترین شہر ہے۔ یورپ کے لیے جدید ریل سروس یہاں سے ہی چلتی ہے اور بیشتر پوری ممالک کے قونصل خانے یہاں موجود ہیں جو سفری اور کلچرل سہولیات بہم پہنچاتے ہیں۔
چھتوں کا انداز ایساجیسے کسی بھی یورپی شہر میں سرخ کھیریل کی ڈھلوان جو بارشوں یا برف باری میں مکینوں کے لیے آسانی فراہم کرتی ہیں۔ صحت کی جدید سہولیات سے مزین ہسپتال اور سماجی خدمت کے لیے ہلال احمر جیسے "ترک کیزبے" کے نام سے جانا جاتا ہے جیسے ادارے ہمہ وقت لوگوں کی خدمت کرتے نظر آتے ہین۔
M.A.F.W.Aسینٹر مرمورا ریجن ترک ہلال احمر کے زیر انتظام ہے جو آفت مرکز کہلاتا ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کی آفات ارضی و سمادی اور دنیاوی از قسم دہشت گردی وغیرہ سے نپٹنے کے ماہرین و سامان موجود ہے۔
استنبول ایک شہر اور دو براعظم ، ایک مقام اور کئی تہذیبوں کے ملاپ کا نام ہے۔ دنیا کے چند ایک خوبصورت ترین شہروں اور پر امن خوبصورت و پر فضا مقامات میں سے ایک ہے۔ جہاں کی سیاحت ایک بار کر لینے والا اس کا تا عمر اسیر رہتا ہے۔
اسکے کھانے مشرق و مغرب کا حسین امتزاج لیے ہوئے ہیں ، یورپ و ایشیاء کی تجارت کا مرکز اور دو مختلف دنیاوں اور تہذیبوں کا ملاپ ترکی کی قدامت اور جدید یت کا سب سے بڑا مرکز جہاں آج بھی مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے لوگ پرسکو زندگی گزارتے ہیں۔
دنیا میں رہنے کو اگر چاہیے کوئی آشیانہ
بس اک خواہش ہے شہر ہو استنبول

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں