عالمی ایجنڈا ۔128

302433
 عالمی ایجنڈا ۔128


جمہوریہ ترکی میں سات جون کو کئی جماعتی پارلیمانی انتخابات ہوئے ۔ترکی کی نفوس کا 99 فیصد مسلمان ہے اور ترک عوام 19 ویں صدی کے عثمانی دور سے جمہوریت کا تجربہ رکھتے ہیں ۔ ترکی میں مغربی ممالک کی طرح جمہوری طریقے سے ہونے والے انتخابات کے بعد حکومتیں قائم اور تبدیل ہوتی ہیں ۔ انتخابات میں مختلف نظریات کی سیاسی پارٹیاں حصہ لیتی ہیں ،انتخابی مہم چلائی جاتی ہے ،میڈیا کے ساتھ پروپگنڈا کیا جاتا ہے اور آخر کار رائے دہندگان کو متاثر کرنے والے نمائندے منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں ۔
اگرچہ جمہوری اقدار کے مالک مغربی ممالک کے لیے اس طرز کے انتخابات عام بات ہے لیکن ڈیڑھ ارب نفوس کے مالک مسلمان ممالک کے لیے جمہوری طریقے سے ہونے والے انتخابات انتہائی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اکثر مسلمان ممالک میں جمہوریت موجود نہیں ہے ۔ جن چند ایک ممالک میں جمہوریت قائم ہے ان میں ترکی بھی شامل ہے اور وہ جمہوری تجربات رکھنے والا ایک ترقی یافتہ ملک ہے ۔
بلاشبہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ترکی میں جمہوریت کے معاملے میں خامیاں موجود نہیں ہیں ۔ چار
با ر فوجی انقلاب کے ذریعے منتخب حکومتوں کو ختم کرتے ہوئے ان کی جگہ عسکری حکومتیں قائم ہوئیں اور چند سال پہلے تک اظہار رائے کی آزادی ،انسانی حقوق اور سول سوسائیٹیز کی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں اور انھیں محدود کیا جاتا رہا ۔ لیکن حالیہ دس برسوں سے جمہوری اقدامات کے ذریعے جمہوری مسائل پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے ۔ مثلاً 2014 اور 2015 میں تین بار ہونے والے انتخابات میں فوج نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی اور سیاسی پارٹیوں نے انتخابات میں ایک دوسرے کیساتھ مقابلہ کیا ۔ میڈیا نے آزادی کیساتھ نشریاتی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور سول سو سائیٹیز نے اپنی پسند کی پارٹیوں کی حمایت کی ۔مختصراً یہ کہ حالیہ انتخابات میں عوام نے دیگر جمہوری ممالک کی طرح اپنے پسندیدہ نمائندوں کو منتخب کیا ہے ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔۔
دراصل متعدد مسلمان ممالک میں انتخابات کروائے جاتے ہیں ۔ انتخابات کے ذریعے حکومتیں قائم ہوتی ہیں اور ان انتخابات میں متعدد پارٹیاں حصہ لیتی ہیں ۔ مثلاً پاکستان ،اندونیشیا ،ایران ،ملائشیا ،بنگلہ دیش سمیت کئی ایک مسلمان ممالک میں جمہوریت کے بنیادی عنصر ادارے ،اصول ،عمل اور ایکٹرز موجود ہیں ۔ ان ممالک میں نام نہاد جمہوریت ہی سہی لیکن جمہوریت موجود ہے ۔ دوسری طرف خلیج کے عرب ممالک کو شاہی نظام کیساتھ چلایا جا رہا ہے ۔عوام کو انتخابات کے ذریعے سربراہ منتخب کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ ان ممالک میں اپنے مخصوس طرز کے سسٹمز موجود ہیں ۔ صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل پائے جاتے ہیں ۔ ترکی میں جمہوریت کیساتھ ساتھ بعض مسائل بھی موجود ہیں ۔ ترکی اور اسلامی ممالک سے متعلق تحریر سائینسی ادب میں ان مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اگر مسائل کی ایک فہرست بنائی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سول انتظامیہ ، سول سوسائیٹیز اور سرگرمیوں ،اظہار رائے کی آزادی ، جہاں شمول یا جدید آئین ،قانون کی برتری اور منصفانہ اور مساوی شکل میں مقابلے کے امکانات جیسے معاملات میں مسائل موجود ہیں ۔ مسلمان ممالک میں جمہوریت سے متعلقہ مسائل کی وجوہات کا تعلق کچھ حد تک تاریخی اور سیاسی عناصر اور کچھ حد تک اسلام کے مختلف اشکال میں تبصروں اور عمل درآمد سے ہے ۔
مسلمان ممالک میں جمہوری مسائل کی بنیادی وجہ اکثر ممالک میں نوآبادیاتی اور سامراجی ورثے کی موجودگی ہے ۔20 ویں صدی کے آغاز میں مغربی ممالک کی طرف سے لاگو کردہ طرز نظام آمرانہ، جابر اور فوجی خصوصیات کا حامل تھا ۔اس دور میں واحد پارٹی یا واحد آمر کی حکومتیں جمہوری طرز حکومت کی اجازت نہیں دیتی تھیں ۔اس کی زندہ مثال مصر میں موجود ہے ۔ عوام کیطرف سے منتخب اور ملک کو جمہوری بننے کا موقع فراہم کرنے والے محمد مرسی کی حکومت کو فوجی انقلاب کے ذریعے ختم کر تے ہوئے ملک میں فوجی حکومت قائم کر دی گئی ۔یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت کے علمبردار یورپی ممالک نے سسی انتظامیہ کی مخالفت کے برعکس اس کی حمایت کی ہے ۔ مسلمان ممالک میں اس طرز کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔
دوسری طرف مسلمان ممالک میں جمہوریت اور آزادیوں سے متعلق متعدد منفی نظریات موجود ہیں ۔ان میں اسلام کی مختلف انداز میں تفسیر سے وابستہ سول سوسائیٹیز،اظہار رائے کی آزادی ،انسانی حقوق اور قانون سازی جیسے نظریات جمہوری عناصر کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں یا انھیں محدود کرتے ہیں ۔ حالیہ چند برسوں میں ابھرنے والی داعش جیسی تنظیموں کے اسلام سے متعلق نظریات اسکی واضح مثال ہیں ۔ اسلام سے متعلق اس قسم کے تبصروں کیوجہ سے مسلمان ممالک میں جمہوری ثقافت کو فروغ نہیں دیا جا سکا ہے ۔
شاید ترکی کا دیگر اسلامی ممالک سے بنیادی فرق اسی میں پنہاں ہے ۔ ترکی میں 19 ویں صدی میں عثمانی دور سے لیکر ابتک قانون سازی ،آزادانہ انتخابات اور کئی جماعتی نظام کو فروغ ملا ہے ۔ ترکی نے جمہوریت کی راہ پر گامزن ایک ملک کی حیثیت حاصل کر لی ہے ۔ دریں اثناء ترکی کی یورپی کونسل، یورپی یونین اور نیٹو کی رکنیت کے جمہوریت کے لیے بنیادی عناصر ہونے کی حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں