عالمی ایجنڈا ۔124

275021
عالمی ایجنڈا ۔124


ستمبر 1980 میں فوجی انقلاب برپا کرتے ہوئے سول حکومت کا تختہ الٹانے والے جنرل کنعان ایورن 98 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں ۔بعض عالمی میڈیا چینلز کنعان ایورن کو چلی کے لیڈر پنوشے سے تشبیح دے رہے ہیں ۔ کنعان ایورن نے ترکی کی 35 سالہ تاریخ پر دھبہ لگایا ہے۔انھوں نے فوجی انقلاب کے بعد اینٹی ڈیموکریٹک حکومت قائم کی اور خود اس کے صدر بن گئے۔ 1980 کے فوجی انقلاب سے نہ صرف حکومت اور پارلیمنٹ کو توڑا گیا بلکہ1982 میں تیار کردہ آئین سے سول اور ڈیموکریٹک سسٹم کو ختم کرتے ہوئے اس کی جگہ جابر اور عسکری سسٹم قائم کیا ۔ اس دور میں آزادیوں کو محدود کرتے ہوئے ہزاروں انسانوں کو قتل کیا گیا اور انھیں جیل میں ڈالا گیا ۔کنعان ایورن نے تین سال تک فوجی جرنیل کے طور پر اور سات سال تک صدر کی حیثیت سے فرائض سنھبالے اور ترکی کی داخلی اور خارجی پالیسوں کو اپنی مرضی سے رخ دینے کی کوشش کی ۔داخلی پالیسی میں عسکری ڈھانچے کو مشروع بنانے والے سیاسی ،مذہبی اور تعلیمی ماڈل پر عمل درآمد کروانے اور خارجہ پالیسی میں ترکی کو علاقائی اور عالمی کردار ادا کروانے کے لیے سر گرم عمل رہے ۔
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کنعان ایورن کی تمام داخلی اور خارجی پالیسیاں کامیاب رہی ہیں ۔مثلاً 1983 اور 1987 کے انتخابات میں ان کی حمایت کردہ پارٹیاں کامیاب نہیں ہوئیں اور ترکی کے عرب اور اسلامی ممالک کیساتھ قربت کی خواہش نہ رکھنے کے باوجود وہ رکارٹ نہ بن سکے تھے ۔ان دونوں مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی فوجی طاقت لا محدود نہیں تھی ۔ حتیٰ کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ 12 ستمبر کا فوجی انقلاب ترکی کی داخلی اور خارجی پالیسی کی شرائط اور حدود کے اندر پروان چڑھا ہے ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔۔
کنعان ایورن کے فوجی اقتدار کو ترکی کی داخلی اور خارجی حالات و شرائط کو مد نظر رکھے بغیر سمجھنا مشکل ہے ۔ حتیٰ کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایورن اور ان کا انقلاب ترکی کی داخلی اور خارجی شرائط کی پیداوار ہے ۔ انقلاب برپا کرنے کے لیے بہانہ بنائے جانے والے کشیدہ حالات نے کنعان ایورن اور ان کے فوجی ٹولے کی حوصلہ افزائی کی تھی ۔انقلاب سے پہلے ترکی میں موجود سیاسی تناو اور معاشرتی تشدد کو انقلاب کی وجہ دکھایا گیا تھا ۔ اس دور کی سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کی ناکامیوں کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔
ملکی سیاست میں جو باعث حیرت نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ فوجی انقلاب کیخلاف شہری تنظیموں اور اداروں اقتصادی ،اکیڈیمی اور میڈیا کے ایکٹرز نے کوئی رد عمل نہیں دکھایا تھا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کنعان ایورن کیطرف سے بذات خود تیار کیے جانے والے 1982 کے آئین کو 92 فیصد ووٹوں سے قبول کر لیا گیا تھا ۔ان نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس انقلاب کو عوام کی حمایت حاصل تھی ۔ بعض ماہرین کیمطابق فوجی دباو اور کنعان ایورن کیطرف سے عوام کو ورغلانےکیوجہ سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے اور بعض کیمطابق انقلاب سے قبل ملک میں پائے جانے والے خوف و ہراس ،افراتفری کے عالم اور تشدد کے خاتمے کیوجہ سے عوام نے فوجی انقلاب اور ریفرنڈم کی حمایت کی ہے ۔دونوں نظریات درست ہیں۔ عوام نے کنعان ایورن اور فوجی انقلاب کی حمایت کی ہے ۔
کنعان ایرون کی کامیابی کےدوسرے پہلو کا تعلق عالمی حالات اور عالمی حمایت سے ہے ۔12 ستمبر کا انقلاب 1979 کے ایران انقلاب ،1980 کے سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے اور 1980 کی ایران عراق جنگ کے دور میں عمل میں آیا تھا ۔ عالمی پیش رفت کیوجہ سے ترکی کے ارد گرد کے علاقے کشیدگی اور عدم استحکام کا شکار تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی اس دور میں درپیش ملکی تشدد کے مسائل اور افراتفری کی وجہ سے عالمی عدم استحکام کی دہلیز پر کھڑا تھا ۔ترکی کے نیٹو کے رکن ہونے ،کیپٹیلسٹ سسٹم کا اہم جزو ہونے اور امریکہ کے علاقے کے طاقتور ترین حلیف ملک ہونے کی حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
کنعان ایورن کے فوجی دور میں عالمی سسٹم کے توازن نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ایورن اور ان کے فوجی ٹولے کو خاصکر یورپ کی ہمدردی حاصل تھی ۔ جب ترکی میں فوجی انقلاب آیا تو یورپ نے معمولی شکل میں انقلاب کیخلاف ردعمل دکھایا تھا ۔یورپی یونین کی انسانی حقوق کی تنظیموں اورامریکہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے کنعان ایورن کے فوجی انقلاب پر کڑی نکتہ چینی کی تھی اور مالی اور سیاسی لحاظ سے انھیں سزا دینے کی کوشش کی تھی ۔مثلاً یورپی یونین اور یورپی کونسل نے ترکی کیساتھ تعلقات کو التواء میں ڈال دیا تھا ۔یورپی یونین اور امریکہ کی سول سوسائیٹیز نے انسانی حقوق کی پامالی کیوجہ سے ایورن اور انقلابی ڈیموکریسی کی مخالفت کی تھی لیکن دوسری طرف یورپی ممالک نے کنعان ایورن کو صرف نرم انداز میں متنبہ کیا تھا ۔ مثلاً نیٹو اور بعض اتحادی ممالک نے ترکی کی فوجی امداد کو جاری رکھا تھا لیکن کنعان ایورن پر جمہورت کی بحالی کے لیے دباو بھی ڈالا تھا ۔
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ کنعان ایورن کے انقلاب کو قومی اور عالمی شرائط کا جائزہ لیے بغیر سمجھنا مشکل ہے ۔ لیکن حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں ترکی کی تاریخ پر انقلاب کا دھبہ لگانا ناقابل معافی فعل ہے ۔ کنعان ایورن اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن 33 برسوں سے ان کی چھوڑی ہوئی تلخ میراث موجود ہے ۔اب 1982 کے آئین کو بھی تاریخ کا حصہ بنانے کا وقت آ گیا ہے ۔ وقت ہی یہ بتائے گا کہ ابتک آئین بنانے میں کامیاب نہ ہونے والے سیاستدان مستقبل میں کامیابی حاصل کر سکیں گے یا نہیں ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں