کوچۂ فن و ادب - 14

نصیرالدین شاہ ایک بنے بنائے اداکار ہیں لیکن اداکاری کو وہ ایک کرافٹ سمجھتے ہیں جس طرح کوزہ گرکو اپنے فن میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے اسی طرح ان کے خیال میں ایک اداکار کو بھی فنِ اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنی چاہیے۔خود بھی انہوں نے جو مقام حاصل کیا ہے مسلسل سیکھنے کے عمل اور محنت و لگن سے حاصل کیا ہے

234282
کوچۂ فن و ادب - 14

معروف بھارتی اداکارنصیرالدین شاہ پچھلے دنوں پاکستان میں تھے۔انہیں دیکھ کر نہ جانے کیوں غالب کا خیال آتا ہے۔ نصیرالدین شاہ اسے اپنا نہیں گلزار کا کمال بتاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چھ گھنٹے کی اس سیریل کا اسکرپٹ ہی اتنا خوبصورت تھا کہ میرے علاوہ کوئی اور اداکاربھی غالب کا کردار اداکرتاتو غالب ہی نظر آتا۔غالب کے حوالے سے نصیرالدین شاہ کی یہ بات کسی حدتک درست بھی ہے کیونکہ غالب واحد شاعر ہیں جن کی زندگی کے حوالے سے کئی ایک فلمیں، ٹی وی سیریل اور اسٹیج ڈرامے بن چکے ہیں۔سب سے پہلے 1954ء میں مرزا غالب کے نام سے بلیک اینڈ وائٹ فلم بنی تھی جس میں اداکار بھارت بھوشن نے غالب کا کردار ادا کیا تھااوراداکارہ ثریا غالب کی محبوبہ چودہویںبائی کے روپ میں جلوہ گر ہوئیں تھیں۔اس کے بعد پاکستان میں بھی مرزا غالب کے عنوان سے ایک فلم بنی تھی۔جس میں لالہ سدھیر غالب تھے اور ان کی چودہویں میڈم نورجہاں تھیں۔یہ فلم 1961ء میں ریلیز ہوئی تھی۔اس فلم میں نورجہاں کی آواز میں گائی ہوئی غالب کی غزل ’’مدت ہوئی ہے یار کو،مہماں کیے ہوئے‘‘۔آج بھی دلوں کو گرما دیتی ہے۔
اسی طرح 1969ء میں حکومتِ پاکستان نے خلیق ابراہیم کو مرزا غالب پر ایک ڈاکیومنٹری فلم بنانے کا ٹاسک دیا۔اس میں سبحانی بایونس نے غالب کا کردار ادا کیاتھا۔یہ فلم 1972ء تک تیار ہو چکی تھی لیکن ریلیز ہونے سے پہلے ہی بند ڈبوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی گئی۔البتہ سبحانی بایونس کو یہ فائدہ ضرورہوا کہ بعد میں انہوں نے ایک ٹی وی ڈرامے میں غالب کا یہی کردار ادا کر کے شہرت حاصل کی۔مرزا غالب کے حوالے سے اسٹیج ڈرامے بھی بہت ہوئے ہیں۔ہندوستان میں شیلا بھاٹیا کی پیش کش میں مہدی صاحب کے لکھے ہوئے یہ کھیل بہت مقبول ہوئے جن میں اداکار محمد ایوب نے غالب کا کردار کچھ اس انداز میں ادا کیا تھا کہ لوگ انہیں غالب کہہ کر پکارنے لگے تھے۔غالب کی معاشی بدحالیوں اور عشق میں ناکامیوں پرمشتمل کئی ایک کھیل نیشنل اسکول آف ڈرامہ دہلی نے بھی پیش کیے جن میں ایک کھیل ایسا بھی تھا جوغالب کے دیوان کی کتابت کرنے والی کاتبہ سے ہو جانے والے عشق پر مبنی تھا۔اسی طرح سندرا ورما، رام گوپال بجاج، جمیل شیدائی، دانش اقبال اور دیوندر سنگھ کے غالب پر لکھے ہوئے کھیل بھی بہت مقبول ہوئے اور ظاہر ہے ہر ایک کھیل میں کسی نہ کسی مختلف اداکار نے غالب کا کردار ادا کیالیکن 1988ء میں دُور درشن کے لیے بننے والی مرزاغالب سیریل جسے گلزار نے لکھا اورجس میں نصیرالدین شاہ نے غالب کا کردار ادا کیا،سب سے آگے نکل گئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شہرت اور مقام اسے ایک دم حاصل نہیں ہوا۔ نصیرالدین شاہ کہتے ہیںجب یہ سیریل ٹیلی وژن پر دکھائی جانے لگی تو اسے دیکھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔گلزار صاحب اس کے بعد نظیراکبرآبادی پر ڈرامہ سیریل بنانا چاہتے تھے لیکن مرزاغالب کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ سیریل بنانے کی اجازت نہ مل سکی۔ بعد میں جب لوگوں نے مرزا غالب کو وڈیو زپر دیکھنا شروع کیا تو اس سیریل کو پذیرائی ملنے کے ساتھ ساتھ نصیرالدین شاہ کے حصے میں بھی غالب جیسی نیک نامی آتی چلی گئی۔جگجیت اور چترا نے غالب کی غزلیں گا کر الگ نام کمایا۔
نصیرالدین شاہ ایک بنے بنائے اداکار ہیں لیکن اداکاری کو وہ ایک کرافٹ سمجھتے ہیں جس طرح کوزہ گرکو اپنے فن میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے اسی طرح ان کے خیال میں ایک اداکار کو بھی فنِ اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنی چاہیے۔خود بھی انہوں نے جو مقام حاصل کیا ہے مسلسل سیکھنے کے عمل اور محنت و لگن سے حاصل کیا ہے۔
نصیرالدین شاہ اردو اور ہندی کو ایک ہی زبان سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے پاکستانی فلم ’’زندہ بھاگ ‘‘ میں اس لیے کام کیا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی فلمیں بننی چاہییں۔جو آج کے پاکستان کی صحیح عکاسی کرتی ہوں۔
نصیرالدین شاہ کے خیال میں ہندوستانی یا پاکستانی تھیٹر 1930ء سے پہلے والے پارسی تھیٹر سے آگے نہیں بڑھا۔لیکن انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ چیزوں کو سمجھا ہے اورانہوں نے تھیٹر کو سینما کے مدمقابل لا کر پیش کرنے کے بجائے اسے اس کی اصل شکل میں پیش کرنے کوشش کی ہے۔نصیرالدین شاہ کے مطابق آپ لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے کہ وہ تھیٹر کے بجائے کوئی فلم دیکھ رہے ہیں۔پردہ گرانا، عجیب سی موسیقی کے ساتھ اداکاروں کا سامنے آنا اور پردے کے پیچھے سیٹ تبدیل کرنا ، سب بے معنی ہے۔نصیرالدین شاہ کہتے ہیں کہ ہم شائقین کے سامنے ہی سیٹ تبدیل کرتے ہیں ، شائقین سے باتیں بھی کرتے ہیں ۔اس طرح ایک اداکار اور اس کے پرستار کے بیچ جو دیوار ہے وہ باقی نہیں رہتی ۔تھیٹر کا اصل کام بھی یہی ہے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں