کوچۂ فن و ادب - 11

رفیع رضا ایک ایسے متحرک احساس کا نام ہے جس کے خمیر میں خیر و شرباہم دست و گریبان رہتے ہیں ۔نیکی اور بدی کی الوہی قوتیں اسے ایک پل چین سے نہیں بیٹھنے دیتیں ۔ کسی نفسیاتی ، تجرباتی یا مشاہداتی الجھن نے اسے اس گمان میں متبلا کر دیا ہے کہ وہ شاعری کے افق پر ایک لکیر چھوڑ گیا ہے

273989
کوچۂ فن و ادب - 11

رفیع رضا سے میرا تعارف فیس بک کی بدولت ہواجو زیادہ خوشگوار اس لیے نہیں تھا کہ ان کے دوست ندیم رشید کی ایک غزل میں پائے جانے والے کسی لغوی سقم کے حوالے سے ہم دونوں کی رائے قدرے مختلف تھی۔ اختلاف ِ رائے سے آغاز ہونے والے اس تعلق نے کب اور کیسے دل و دماغ میں جگہ بنائی ، کچھ یاد نہیں پڑتا۔بس اتنا یاد ہے کہ میں رفیع رضا کی ہنگامہ خیزطبیعت سے میل نہ کھاتے ہوئے بھی اس کے احساس کی شورش میں ناچتی حشر سامانیوں ،خوش گمانیوں ، بدگمانیوں اور دانائی کے گمان میں لپٹی نادانیوں سے لطف اندوز ہونے لگا ۔میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ رفیع رضا ایک ایسے متحرک احساس کا نام ہے جس کے خمیر میں خیر و شرباہم دست و گریبان رہتے ہیں ۔نیکی اور بدی کی الوہی قوتیں اسے ایک پل چین سے نہیں بیٹھنے دیتیں ۔ کسی نفسیاتی ، تجرباتی یا مشاہداتی الجھن نے اسے اس گمان میں متبلا کر دیا ہے کہ وہ شاعری کے افق پر ایک لکیر چھوڑ گیا ہے۔ اب جو بھی ستارہ ابھرتا یا ٹوٹ کر گرتا ہے ، رفیع کو لگتا ہے کہ اسے کہنی مار کر گزرا ہے۔ ردّعمل میں وہ انور شعور کے اس شعر کی عملی تفسیر بن جاتا ہے۔
صاف و شفاف آسماں کو دیکھ کر
گندی گندی گالیاں بکتا ہوں میں
صدیوں کی روایت سے ربط ٹوٹنے کا عمل یہیں کہیں سے شروع ہوتا ہے اور رفیع رضا ہجرت زدہ وجود اور مابعدالطبعیات کے عرفان کے ساتھ روایت سے بغاوت کی طرف چل پڑتا ہے کہ مخالفت تو علامت مرے وجود کی ہے ۔لیکن جہان ِ تروتازہ کی تلاش میں بھی جب اسے اپنے جیسا کوئی تن بدن نہیں ملتا توبے موسم بارش میں بھیگنے جیسی گہری اداسی بے پھل دعائوں کی طرح پیلے دنوں میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔بے وصال دنوں کا خسارا سرخ شاموں کے جمگھٹے میں بے چین لوگوں کے درمیان برسے بنا چھٹ جانے والے بادلوں کی یاد دلاتا ہے۔اور رفیع اپنے آپ سے کچھ یوں الجھنے لگتا ہے۔
پھر جارہا ہوں خون بہانے کو میں رضا
گزرا تھا ایک پل ابھی خود سے لڑے ہوئے
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ رفیع نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ ہر ایک سے لڑائی، ہر ایک سے جھگڑا، ہرا یک سے تلخی ، ہر ایک سے رنجش ۔جیسے لاہور کے انارکلی یا کراچی کے بوہری بازار میں لوگ ایک دوسرے کو کہنیاں مارتے ، پائوں پر پائوں رکھتے ہوئے گزرتے ہیں اور معذرت بھی نہیں کرتے۔ رفیع جیسا حساس طبع تخلیق کارانہیں غصے سے گھور کر بھی نہ دیکھے تو کیا کرے۔
میں کم آمیز تھا ، خاموش تھا، بیٹھا ہوا تھا میں
کسی نے میری مٹی کو اچھالا ہے تو اچھا ہے
ایسا بھی نہیں کہ وہ ہر وقت زود رنجی کی ویران سرائے میں جلتا رہتا ہے۔ اس کی طبع ِ رواں کا دیا ایک ستارے کی طرح طلوع ہوتا ہے اور اپنی ہی روشنی میں سفرکرتے ہوئے اس ادراک تک چلا جاتا ہے ۔
پھر ایک روز درِ صلح پر بھی لے آئی
مری طبیعت ِ آمادہ ء فساد مجھے
غبار آنکھ سے اُترے ، فتور سر سے رضا
خود اپنے مرض کا کرنا ہے انسداد مجھے
آمادہ ٗ فساد رضا انسداد ِ مرض کے بعد جب صلح جوئی کی طرف آتا ہے تو رو رو کر اتنا سریلا ہو جاتا ہے کہ اس کی فکری بالیدگی گونگے بہرے آسمانوں کے دبیز پردوں پہ رنگ و نور کے ستارے ٹانکنے لگتی ہے ۔اور وہ دل و دماغ سے باتیں کرتے ہوئے روح کو چھونے والے ایسے اشعار کہنے لگتا ہے۔

عجیب رنگ تھا سورج کی جاں نکلنے کا
وہ بجھ رہا تھا تو لگتا تھا مر رہا ہوں میں

آسمانوں سے کیا اُترنا ہے
خالی برتن کو دیکھتے رہیئے
اسے کہتے ہیں تار تار ہوا
میرے دامن کو دیکھتے رہیئے
زندگی دائرے سے بڑھ کے نہیں
ان کے کنگن کو دیکھتے رہیئے

وہ سامنے ہے مگر اس کو چھو نہیں سکتے
بہت عجیب کہانی ہے نارسائی کی

میں اپنے پاس جاتا ہوں بہت کم
تمہارے پاس آتا ہوں زیادہ
رضا گہرا بہت گہرا ہو پانی
تو میں بھی ڈوب جاتا ہوں زیادہ

میں تو وہیں رہاہوں جہاں پر رہا نہیں
میں نے تو ایک دن بھی گزارا یہاں نہیں
منہ سے نہ حال پوچھیں ، نظر بھر کے دیکھ لیں
اتنابھی دوستوں کو گوارا یہاں نہیں

اک گلی دیکھتی رہتی ہے خود اپنے اندر
اور مکاں گھورتا رہتا ہے خلائوں میں کہیں
دھوپ میں جلتے ہوئے یونہی تجھے یاد کیا
تھک کے پھر بیٹھ گیا میں تری چھائوں میں کہیں

یہ چار دن کی زندگی ، یہ چار دن کا عیش
ہم کو نہیں خریدنا کوڑا کباڑ یہ

رفیع رضا کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے کسی حد تک اپنا لہجہ دریافت کر لیا ہے۔ اور چھوٹے قدوں کے لوگ بھی ہم سے بڑے ہوئے ،کا خیال وہ دل سے نکال دے اور زودگوئی اور زود رنجی سے تھوڑا سا اجتناب بھی کر لے تو شاعری اسے اپنے لیے انتخاب کرنے میں لمحہ بھر کو بھی تامل سے کام نہیں لے گی۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں