عالمی ایجنڈا ۔115

260611
 عالمی ایجنڈا ۔115


دس سال سے جاری ایران کے ایٹمی پروگرام کے مسئلے کو ابھی تک حل نہیں کیا جا سکا ہے ۔اب اس نے مزید پیچیدہ صورتحال اختیار کر لی ہے ۔اس مسئلے کی اصل وجہ ایران کے جوہری توانائی کی تیاری کے ہدف کو اسرائیل ،یورپ اور علاقائی ممالک کیطرف سے شک و شبہات کی نظر سے دیکھنا ہے کیونکہ یہ ممالک ایران کیطرف سے یورینیم کی افزودگی کو ایران کی خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی کوشش قرار دے رہے ہیں ۔وہ ایران کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور علاقائی ممالک کے لیے شدید خطرہ تشکیل دینے کے دعوے کیساتھ بے چینی محسوس کرتے ہیں ۔1968 این پی ٹی معاہدے کی رو سے ایران سمیت تمام رکن ممالک پر ایٹمی اسلحے کی تیاری پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔اگرچہ اسرائیل،پاکستان اور ہندوستان اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کے مالک بن گئے ہیں لیکن اب تمام ممالک کی یہ کوشش ہے کہ ایران اس گروپ میں شامل نہ ہو سکے ۔
ایران بارہا یہ کہہ چکا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا کو ئی مقصد نہیں رکھتا ہے ۔حتیٰ کہ خامنائی نے اسے حرام قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود اندیشے موجود ہیں ۔ایران سے اپنی ایٹمی سرگرمیوں کو روکنے اور عالمی نگران کمیٹی کو اپنی تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا لیکن ایران نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے خفیہ طور پر ایٹمی سرگرمیوں کو جاری رکھا تھا ۔ایران نے 1970 میں جس ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا وہ 1990 کی دھائی میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔اس ری ایکٹر میں 20 فیصد یورینیم کی افزودگی کا کام شروع ہوا۔ذرائع کیمطابق اس مرحلے کے بعد ایران نے ایٹمی اسلحے کی تیاری کی صلاحیت حاصل کر لی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری نے ایران پر دس سال سے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔
اس صورتحال سے ایران اور مغربی ممالک سخت مشکل میں تھے۔ عالمی برادری ایٹمی صلاحیت
کے مالک ایران کو دھمکی کی نظر سے دیکھ رہی تھی اور ایران دن بدن بڑھتی ہوئی پابندیوں کیوجہ سے مشکلات سے دوچار تھا ۔ان حالات کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور خاصکر صدر اوبامانے ایران کیساتھ ایٹمی معاہدہ طے کرنے کی کوششوں میں تیزی پیدا کی ۔2006 میں شروع ہونے والے سلسلہ مذاکرات سے ابھی تک تک کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو سکا ہے ۔اس ناکامی کی بنیادی وجہ مغرب اور اسرائیل کے درمیان اعتماد کا فقدان اور اسرائیل اور اسرائیلی لابی کیطرف سے مذاکراتی عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنا تھا ۔ اسرائیل اور اسرائیلی لابی ایران کیساتھ کسی قسم کا معاہدہ طے کرنے کے بجائے اس کیخلاف فوجی کاروائی کرنے کے حق میں تھی ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔۔
باراک اوباما نے صدر کا عہدہ سنھبالنے کے بعد ہر موقع پر ایران کیساتھ معاہدہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نےایران کو رضا مند کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ صدراحمدی نژاد کیساتھ حسب منشا ءرابطہ قائم نہ کر سکے ۔ صدر روحانی کے اعتدال پسند ہونے کیوجہ سے مذاکرات کے عمل میں سرعت پیدا کی گئی ۔ایک سال کے اندر اندر سرکاری طور پر معاہدہ کرنے کی جانب اہم قدم اٹھائے گئے اور 24 نومبر 2013 کو 1+5 ممالک اور ایران کے درمیان حتمی معاہدے کے روڈ میپ پر اتفاق رائے ہوا ۔اس معاہدے کی رو سے مارچ 2015 میں بنیادی شقوں پر مبنی ایک فریم معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے اور یکم جولائی 2015 کو یہ معاہدہ آخری شکل میں سامنے آ جائے گا ۔اگرچہ طرفین معاہدہ طے کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن معاہدے کی تفصیلات اور متن کے بارے میں فی الحال کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں ۔
صدر اوباما اور جان کیری کے اعلانات کیمطابق حتمی معاہدے کے دائرہ کار میں ایران ایٹمی اسلحے کی تیاری سے مکمل طور پر دست بردار ہو جائے گا لیکن وہ ان کی زیر نگرانی ایٹمی توانائی پیدا کر سکےگا ۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ اس معاہدے کو طے کرنے کے لیے ایران پر کسی قسم کی نئی پابندیاں عائد نہیں کی جانی چاہئیں اور اگر کانگریس نے پابندیوں کا فیصلہ کیا تو ہم اس کا ویٹو کر دیں گے ۔
صدر باراک اوباما کے اس عزم کیوجہ سے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیا مین نیتان یاہو اور یہودی لابی حرکت میں آ گئی ۔وزیر اعظم نیتان یاہو نے صدر اوباما کی مخالفت کے باوجود امریکہ کا دورہ کرتے ہوئے تین مارچ کو کانگریس سے خطاب کیا ۔انھوں نے کہا کہ اگر صدر اوباما نے ایران کیساتھ معاہدہ کیا تو اس معاہدے کے خلاف سخت رد عمل دکھایا جائے گا حتیٰ کہ کانگریس سے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا ۔نیتان یاہو کا یہ موقف نہ صرف ایران کیساتھ معاہدہ نہ کروانےکی ہٹ دھرمی بلکہ اوباما انتظامیہ اور امریکہ کی داخلی اور خارجی پالیسی کے لحاظ سے بھی ہنگامی حیثیت کا حامل ہے ۔ نیتان یاہو نے صدر اوماما کی مخالفت کے باوجود مجلس نمائندگان کے سربراہ بوہنر کی خواہش پر جو خطاب کیا ہے اس سے یہودی لابی کی قوت اور اوباما اقتدار کی حدود کی نشاندہی ہوتی ہے ۔امریکی عوام کیطرف سے منتخب صدر اوباما کو اہمیت نہ دینا اور ان پر احکامات صادر کرنے کا مطلب امریکہ کی خود مختاری کو چیلینج کرنا اور 1+5 جیسے بڑے ممالک سے ٹکر لینا ہے ۔ نیتان یاہو کے خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے مشرق وسطی ٰ کے مسائل ،امریکی پالیسی اور عالمی پالیسی پر کسقدر موثر کردار ادا کیا ہے ۔
حالات کا اگر دیگر پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی ایٹمی پالیسی نے ایران اور علاقے کے دیگر ممالک کوکسقدر مشکل حالات سے دوچار کیا ہے ۔ایران اور اسرائیل کے باہمی تنازعے کے علاقے کے دیگر ممالک پر منفی اثرات مرتب کرنے کی اہم مثال ترکی کی 2010 سے لیکر 2012 تک کی خارجہ پالیسی ہے ۔ ترکی نے ایٹمی مسئلے کو حل کروانے کے لیے تہہ دل سے کوششیں صرف کی ہیں ۔تہران معاہدے پر دستخط کروانے میں ثالثی کا کردار ادا کیا مگر ایران اور اسرائیلی لابی کی ضدی پن کیوجہ سے معاہدہ طے نہ ہو سکا ۔ اس مسئلے کے عدم حل سے شام ،عراق اور دیگر علاقائی مسائل پر منفی اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ لہذا علاقائی مسائل کو حل کرنے کے لیےایٹمی معاہدہ طے کروانے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کروانے اور اس معاہدے کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں