اقبال اور عاکف ۔5

اقبال اور عاکف کے ہاں تصور مرد مومن

258825
اقبال اور عاکف ۔5

پروگرام" اقبال اور عاکف" میں ہم آپ کے ساتھ اقبال ا ور عاکف کے کلام میں تصور مرد مومن پر بات کر رہے ہیں۔
اقبال کا مرد مومن طاقت کے حصول کے بعد اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کے لئے وقف کر دیتا ہے اور یوں ایک معاشرے کے افراد کی خودی کے تشکیل اور بلند مراتب تک رسائی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اقبال شخصی خودی کو ملّی خودی کے لئے اس لئے تج دیتے ہیں کیوں کہ وہ طاقت و قوت کو پورے معاشرے میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک فرد کی طرح ایک معاشرہ اور ایک ملت بھی اگر کمزور ہو تو اس کا ختم ہو جانا مٹ جانا یقینی ہے کیوں کہ ان کے نزدیک کمزوری موت کے برابر ہے۔


تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اور
تو ہے اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات موت ہے میری برات


عاکف کا مرد مومن بھی خودی کی تربیت کے بعد اور جسمانی و روحانی قوت کے حصول کے باوجود معاشرے کا تخریبی نہیں تعمیری عنصر ہے۔ وہ اطاعت کے باب میں شریعت الٰہیہ کی عملی تائید کے ساتھ ساتھ ملّی قانون کا بھی پابند ہے اور کسی مرحلے پر بھی اس کا قانون کو ہاتھ میں لینا عاکف کی نگاہ میں مستحسن نہیں ہے۔ عاکف کی نظر میں قمار خانے ، مے خانے بہت بری جگہیں ہیں اور شرابیوں کو جواریوں کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر بھی آپ نہیں چاہتے کہ عاصم ان معاشرتی برائیوں کو شخصی ردعمل پیش کرےکیوں کہ آپ کے خیال میں مجرم کو متعلقہ حکام کے حوالے کیا جانا اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا ضروری ہے۔ مثلاً عاصم رات کو شراب پی کہ ہلہ گلہ کرنے والوں کی پٹائی کرتا ہے تو آپ اس کی اس حرکت کو شخصی سرکشی کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس فعل میں زیادہ آگے بڑھے بغیر واپس لوٹ آنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ کیوں کہ آپ کے نزدیک یہ راستہ ایک بند گلی ہے۔ فرماتے ہیں۔


عاصم میری طرف دیکھو
قریب سے ہی واپس پلٹ آو، بیکار کی کوشش نہ کرو کیوں کہ یہ ایک بند گلی ہے
بچے جس طرح تم بھاگ رہے ہو تمھاری پیشانی دیوار سے جا ٹکرائے گی
اور سر پھٹ جائے گا لہٰذا باز آو ایک طرف ہٹو۔


اقبال کے مرد مومن کی طرح عاکف کا عاصم بھی اپنے اوپر حاکم شخصیت ہے۔ عاکف معاشرے کی حالت پر عاصم کی بے چینی اور اضطراب کو ،غصے اور شدت کو سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی یہ نہیں چاہتے کہ وہ دیگر محکموں اور اداروں کی ذمہ داریاں بھی خود اٹھائے اور ہر معاملے کو شخصی فیصلے اور خواہش کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرے ۔ بجائے اس کے وہ عاصم کو قانون کا پابند اور عادل و منصف دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ اس کی شخصیت میں شریعت الہیہ کے ساتھ ساتھ ملّی قانون کی اطاعت دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ فرماتے ہیں۔


مجھے بتاو میں دیکھوں کہ تم کیا کہتے ہو ، یہ بیچارے گھر
استحصالی حکومت سے کب چھوٹیں گے ؟
اے پاگل کیا اس منطق سے حکومت چلتی ہے؟
ایک ایسا معاشرہ کہ اس کا حکمران طبقہ اپنا کام مکّے سے چلائے
مطلب یہ ہے کہ ان کی فہم و فراست ختم چکی ہے اب اپنی دکان بڑھائیں
کیا قوت کا حق ہے کہ جو بھی اسے نظر آئے اس کا گریبان پکڑ لے
عاصم ہمیں نہ تو اس کے مکّے کی ضرورت ہے نہ ہی اُس کے مکّے کی۔
عاصم اگر کسی پنجے کی طاقت چاہتا ہے تو وہ قانون کا پنجہ ہے
قانون کو تمام قوت دو تاکہ ملت متحد ہو کر چلے
بصورت دیگر ملت، ملت نہیں ایک بکھرا ہوا ریوڑ ہے
دیکھو تو ذرا در حقیقت مملکت کیا پریشان حال ہے
دیکھو عزیزم زبردستی کے اصول پر ملک کو چلانے والے
کی جگہ زمین کے نیچے ہے اوپر نہیں۔
عاکف اگرچہ عاصم کا قانون کو ہاتھ میں لینا پسند نہیں کرتے لیکن اس کا یہ مطب نہیں ہے کہ عاصم ظلم و ناانصافی پر خاموش تماشائی بنا رہے۔ اس کے برعکس اپ اسے حق تلفی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ عاصم کی زبانی کہتے ہیں کہ۔
میں ظلم کی مدح سرائی نہیں کر سکتا، ظالم کو کبھی پسند نہیں کر سکتا
آنے والے کی خوشنودی کے لئے ماضی کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتا
اڑھائی تین بے ناموس لوگوں کی خوشامد نہیں کر سکتا
خاص طور پر انصاف کے نام پر نا انصافی مر بھی جاوں تو نہیں کر سکتا
استقلال کے لئے میری محبت تب سے ہے جب سے میں پیدا ہوا ہوں
کوئی بھی سونے کی زنجیر میری گردن میں پٹا نہیں ڈال سکتی
ایسے آزاد اور حر نوجوان کو جو کسی سے ناحق توقع نہیں رکھتا جو ذاتی منفعت سے سمجھوتہ نہیں کرتاعاکف ابدی زندگی کا مژدہ سناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ۔
اگر تم انسان ہو تو جہاں میں تاابد حر ہو ، گھومو پھرو
تمھارے گلے میں پٹہ ڈال کر کوئی تمھیں گھسیٹ نہیں سکتا
لیکن اگر تم انسان نہیں ہو اور خود کو رضاکارانہ طور پر زین ڈالنے کے لئے پیش کر رہے ہو تو
زین ڈالنے والوں کو گالی نہ دو۔


اقبال کے نزدیک مرد مومن کی معراج نیابت الٰہی ہے جہاں اس کے اور خالق کے درمیان کوئی اختلاف نہیں رہتا۔ اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ اور اس کا فیصلہ الٰہی فیصلہ بن جاتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مرد مومن موت سے خوفزدہ نہیں ہوتا اور دین وملت کی حفاظت کے لئے موت بھی سامنے آئے تو اسے گلے لگانے میں تاخیر نہیں کرتا۔ مرد مومن کی معراج مرتبہ شہادت ہے جسے انہوں نے اسرار خودی میں شہادت حسین کی توصیف کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک استبداد کی جڑ کاٹنے کے لئے شہادت لا الہ کی بنیاد ہے اور اس مقصد کے لئے مرد مومن بے سروسامان بھی رخت سفر ہو جاتا ہے۔ فرماتے ہیں۔


آں امام عاشقاں پور بتول
سرو آزادے زبستان رسول
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
بہر حق درخاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گردیدہ است
مدعایش سلطنت بودے اگر
خود نکردے با چنیں سامان سفر
تیغ بہر عزت دین است و بس
مقصد او حفظ آئین است و بس
رمز قرآں از حسین آموختم
زآتش او شعلہ ہا اندوختم


یعنی وہ عاشقوں کے امام سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے فرزند جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کے سرو آزاد تھے۔
انہوں نے قیامت تک کے لئے استبداد کی جڑکاٹ ڈالی اور ان کی موج خون نے ایک نیا چمن پیدا کیا۔
اگر ان کا مقصود سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے ساز و سامان کے ساتھ یہ سفر اختیار نہ کرتے۔
ان کی تلوار صرف عزت دین کے لئے ہے اور اس کا مقصد صرف شریعت کی حفاظت کرناہے۔
ہم نے قرآن کے رموز سیدنا حسین سے سیکھے ہیں ان کی روشن کی ہوئی اگ سے ہم نے آزادی کے شعلے اکٹھے کئے ہیں۔


عاکف کا مرد مومن بھی کہ جسے انہوں نے عاصم کا نام دیا ہے اپنے فداکار رویے ، معاشرے میں اپنے فرائض کی انجام دہی، سخت محنت اور معاشرے کے مفادات کے لئے ذاتی مفادات کی قربانی سے بلند سے بلند تر مقام پر فائض ہوتا چلا جاتا ہے۔ عاکف کی نظر میں یہ علوی مقام مقامِ شہادت ہے۔ عاصم فوجی بنتا ہے اور حرمت وطن اور توحید کی سربلندی کی خاطر شہادت کے مرتبے کو پہنچتا ہے۔عاکف، عاصم کی شہادت کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ۔


اے اس زمین کی خاطر زمین پر گرے ہوئے فوجی
اگر آسمان سے اجداد اتر کر اس پاک پیشانی کو چومیں تو درحقیقت وہ اس کی اہل ہے۔
تم کیسے عظیم ہو کہ تمھارا خون توحید کو بچا رہا ہے۔
صرف بدر کے شہید ہی اس قدر شان والے تھے۔
آپ کے نزدیک یہ شہادت اس قدر عظیم ہے کہ اس کا کہیں سما سکنا ممکن نہیں ہے لہٰذا کہتے ہیں۔
اے شہید ابن شہید مجھ سے قبر نہ مانگ
تمھارے لئے پیغمبر آغوش وا کئے کھڑے ہیں
عاکف کے نزدیک عاصم کا اس شکل میں دنیا سے رخصت ہونا عاصم کی نظرمیں موت کو اس قدر مستحسن، معتبر اور خوبسورت بنا دیتا ہے کہ وہ موت کے خوف سے آزاد ہو جاتاہے اور دیوانہ وار اس راستے کی طرف بھاگتا ہے۔کہتے ہیں۔
حتی کہ شیر کی آنکھ میں بھی موت کا خوف ہوتا ہے
یہ بچے تو موت سے اس قدر آشنا ہو گئے ہیں کہ شیر کو بھی مات کر گئے ہیں۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں