کوچۂ فن و ادب - 04

انگریزی کا مشہور شاعر شیلے جاگتی آنکھوں سے خیالی تصویریں دیکھتا تھا۔ چاند چہرہ ، ستارہ آنکھوں کے شاعر عبیداللہ علیم اور شیلے میں بظاہر کوئی مماثلت نہیں ہے۔لیکن علیم نے وجود کی خوش رنگ اور مترنم بے اختیاری میں جب شعر کہنا شروع کیا تو اس کی کیفیت بھی شیلے سے کچھ مختلف نہ تھی

202110
کوچۂ فن و ادب   - 04

سُن لو کہ پھر نہ آئے گا ایسا غزل سرا
انگریزی کا مشہور شاعر شیلے جاگتی آنکھوں سے خیالی تصویریں دیکھتا تھا۔ بچپن ہی سے اسے خوابوں کی حکایتیں بیان کرنا اچھا لگتا تھا۔شیلے کی بڑی بہنیں اکثر اس کا مذاق اڑاتیں۔ایک دن نے اس نے کہا گھر کی چھت پر کوئی سو رہا ہے اور خراٹے بھی لے رہا ہے۔ تو کسی نے اس کی بات کا یقین نہ کیا۔لیکن جب اس کی ایک بہن نے چھت کے قریب جاکر سننے کی کوشش کی تو اسے بھی خراٹوں کی آواز سنائی دی۔ پھر تو شیلے کی حیثیت گھر میں ایک ایسے بزرگ کی ہوگئی ، جسے بشارتیں ہوا کرتی تھیں۔شیلے کی ایک اور عادت بھی تھی۔ وہ گوشت نہیں کھاتا تھااور اپنی جیب میں روٹی کے ٹکڑے بھر کر بیابانوں کی خاک چھاننے نکل جاتا تھا۔روایت ہے کہ جس راستے پر روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پڑے ہوئے ملیں۔جاننے والے جان جاتے تھے کہ اس راستے سے شیلے گزرا ہے۔
چاند چہرہ ، ستارہ آنکھوں کے شاعر عبیداللہ علیم اور شیلے میں بظاہر کوئی مماثلت نہیں ہے۔لیکن علیم نے وجود کی خوش رنگ اور مترنم بے اختیاری میں جب شعر کہنا شروع کیا تو اس کی کیفیت بھی شیلے سے کچھ مختلف نہ تھی۔انسانی نفس کو جاننے کا دعویٰ کون کر سکتا ہے۔بس اپنا اپنا وہم ہے اور اپنی اپنی قیاس آرائیاں۔عبیداللہ علیم نے لفظوں کو اپنی طرح بولنے پر مجبور کیا اور پھر یہی جبر اس کی پہچان بن گیا۔شاعری کو اگر کسی مخصوص راستے سے تعبیر کیا جائے تو یہ راہ خود بتاتی ہے کہ ادھر سے علیم گزرا ہے۔
”پہلا شاعر میر ہوا تھا، اس کے بعد ہوں میں“۔
شاعرانہ تعلی ہی سہی لیکن علیم کی آواز بہت سی آوازوں کے ہجوم میں صاف پہچانی جاتی تھی۔اس کی آواز میں ترنم بھی تھا، موسیقی بھی تھی، میر کا درد بھی تھا، غالب کی فکر بھی تھی اور داغ کی زبان بھی۔لفظ اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔گفتگو کرتا تو شگوفے جڑتے۔شعر خود بولتا ہے کہ میں علیم کا شعر ہوں۔ شعروں کے ساتھ ساتھ اس کے جملے بھی خاصے مشہور تھے۔ایک محفل جو روازنہ اس کے گھر سجتی تھی ۔پہلی بار جب میں اس محفل میں شریک ہوا تو محسوس ہوا کہ شعرگوئی کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔شاعر ہونا آپ کو فکری ، احساساتی اورجمالیاتی سطح پر دوسروں سے ممتازکرتا ہے۔ یہ جو آپ شعر کی شکل میں لہو کشید کرتے ہیں ، کمال کرتے ہیں۔ جس معاشرے میں لوگ ڈاکے ڈالتے ہیں، چوریاں کرتے ہیں،لڑتے جھگڑتے ہیں، قتل کرتے ہیںاور پھر بھی سینہ تان کر چلتے ہیں۔وہاں اگر آپ شعر کہتے ہیں۔محبتیں بانٹتے ہیں ۔اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی آپ سے محبت کریں تو یقینی طور پر کوئی جرم نہیں کرتے۔اس پر آپ کو نادم نہیں ہونا چاہیے ۔فخر کرنا چاہیے
پہلی مرتبہ مجھے اپنی اہمیت کا احساس ہوا۔عبیداللہ علیم نے پوری ایک نسل کو اس کی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔ جب بھی کوئی نوجوان نئی غزل سناتا تو علیم پورے شہر میںاس کاجشن مناتے۔اس لحاظ سے نئی نسل کا ہر شاعر یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ علیم سب سے زیادہ اس کے قریب تھے۔علیم کی شاعری میں جتنا دھیما پن ہے وہ شخصی اعتبار سے اتنے ہی زیادہ دبنگ تھے۔نسیم درانی نے اس تضاد کی تفہیم کچھ اس انداز میں کی ہے۔”علیم اپنے فنی آئینہ میں اپنی شخصیت سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔ یوں جیسے کاجل کی کوٹھری میں کوئی سفید براق سا لباس پہنے بیٹھا ہو۔اپنے اشعار کے فلیش بیک میں علیم ایک نرم دل اور حساس شاعر کی حیثیت سے ابھرتا ہے۔ اندر ہی اندر دھیمی دھیمی آنچ میں سلگتا ہوا“۔
نسیم درانی کی اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں صرف اتنا کہوں گا کہ عبیداللہ علیم کی شخصیت کا یہی امتیاز اسے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔اور وہ اپنے کلام میں وہ تابِ نے نوائی پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ آج چپ ہے لیکن پھر بھی اس کا نغمہ سنائی دے رہا ہے۔ اس کا چاند چہرہ اب دعا دعا چہرہ ہوگیا ہے۔ ستارہ آنکھیں اب حیا حیا آنکھیں ہو گئی ہیں۔ علیم کے یہ الفاظ کہ” میں کسی نظریے یا خیال کے رسمی و تکراری عمل کا شاعر نہیں۔میں اپنے مسلسل ظہور اور اپنی متواتر یقینی پیدائش کا شاعر ہوں۔میں زمین اور آسمانی رشتوں ، محبتوں اور صداقتوں کا شاعر ہوں۔اور مجھے یقین ہے کہ ایسے شاعر کے لیے فنا کا قانون منسوخ ہوجاتا ہے“۔فضاﺅں میں اس کے یہ الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں۔ اور اس بات کا یقین دلا رہے ہیں کہ وہ فنا نہیں ہوا۔
یہ میں کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں ، میرے لوگ مررہے ہیں۔
کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہمی قتل ہو رہے ہیں ہمی قتل کر رہے ہیں
اس المیے پر آنسو بہانے اور ہم سب کو رلانے والا علیمویران سرائے کا دیا بن گیا ہے۔کچھ عشق اور کچھ مجبوری میں اپنا جیون وارنے والا کیسا زندہ آدمی تھا،وہ ایک ٹھکانہ تھا،ایک آستانہ تھا۔جہاں نوجوانوں کے قافلے آتے جاتے احساس ِ تفاخر کی نیاز پاتے۔اب کراچی میں کوئی ایسا ٹھکانہ ، کوئی ایسا آستانہ نہیں رہا۔ لیکن علیم کی شاعری آنے والی نسلوں کو اس بات کا احساس دلاتی رہے گی کہ اس راستے سے عبیداللہ علیم گزرا ہے۔
پہچان لو کہ ہمیں کہ تمہاری صدا ہیں ہم
سُن لو کہ پھر نہ آئیں گے ہم سے غزل سرا۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں