کوچۂ فن و ادب - 03

پاکستان کے موجودہ آرٹ منظر کوسمجھنے کے لیے ہمیں کم ازکم دوسری صدی قبل مسیح اور ساتویں صدی عیسوی کے اجنتا اور ایلورا کے غاروں تک جانا پڑتا ہے جہاں سے برآمد ہونے والی مورتیاں اورپتھریلی دیواروں پر تراشی ہوئی تصویریں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ سنگ تراشی، مجسمہ سازی، کندہ کاری اور نقاشی ومصوری ہماری تہذیب کا جزو لاینفک رہی ہے

194635
کوچۂ فن و ادب - 03

پاکستان کے موجودہ آرٹ منظر کوسمجھنے کے لیے ہمیں کم ازکم دوسری صدی قبل مسیح اور ساتویں صدی عیسوی کے اجنتا اور ایلورا کے غاروں تک جانا پڑتا ہے جہاں سے برآمد ہونے والی مورتیاں اورپتھریلی دیواروں پر تراشی ہوئی تصویریں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ سنگ تراشی، مجسمہ سازی، کندہ کاری اور نقاشی ومصوری ہماری تہذیب کا جزو لاینفک رہی ہے۔پاکستانی مصوروں نے انہی تہذیبی رنگوں میں رنگے موقلم سے اپنے کینوس کو ثروت مند کیا ہے۔اورپھروقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی سماجی گھٹن، مذہبی منافرت اور اقوام ِ عالم سے لاتعلقی و بے گانگی جیسے مسائل نے بھی ہمارے آرٹ کو نت نئے رنگوں سے ہم آہنگ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
آج پاکستان میں جو آرٹ تخلیق ہورہا ہے اسے ہم اپنے تناظر میں علوم وفنون کے احیاءکی نشاة ثانیہ سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ لیکن عالمی اُفق پر پاکستان کا نام روشن کرنے والے عصرِ حاضر کے مصوروں کے ذکر سے پہلے صادقین ، عبدالرحمٰن چغتائی، شاکر علی، احمد پرویز، اُستاد اللہ بخش، جمیل نقش، زین العابدین،اقبال مہدی، آذرزوبی، ظہورالاخلاق،گل جی اور تصدق سہیل کا ذکر بھی ضروری ہے کہ انہی کے دم قدم سے عالمی کینوس پر بکھری ہوئی مختلف ملکوں کی قوسِ قزح میںچمکتا دمکتا ایک رنگ پاکستان کا بھی ہے۔
صادقین نے 32 سال کی عمر میں جدید تکنیک سے پینٹ کی گئی اپنی پینٹنگ ”دی لاسٹ سپر“ پر آرٹ کی دُنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ Laureat de Paris حاصل کیا۔شاکر علی کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لاہور میں نیشنل کالج آف آرٹس(این سی اے) کی صورت میں ایک ایسا پودا لگایا جس کے ثمرات سے آج ہم سب مستفید ہو رہے ہیں۔اُستاد اللہ بخش نے روایتی منظر کشی میں دیہی زندگی کے رنگ کچھ اس انداز میں پینٹ کیے کہ وہ ہیر رانجھااور سوہنی مہینوال جیسی لوک داستانوں کا حصہ بن گئے۔چغتائی کی پینٹنگ برٹش میوزیم میں آویزاں ہے۔صادقین اور زین العابدین نے انسان اور انسانی دُکھ پینٹ کیے اور اسی بنیاد پر دلوں کی دھڑکنوں میںاور دنیا کے میوزیمزمیں بس گئے۔
جنرل ضیاءالحق نے جہاں معاشرے کے دیگر شعبوں میں تنزلی کے گڑھے کھودے وہیں فنون لطیفہ کا گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی۔ اسی تاریک دور میں جب صادقین لاہور میوزیم میں میورل یعنی جداری نقاشی میں مصروف تھے کہ انتہاپسند مذہبی تنظم کے کارکنوں نے ان پر حملہ کر دیا تھا جس سے خائف ہو کر انہوں نے مصوری کو تج دیا اور خطاطی شروع کردی ۔یہیں سے ان کے فن کا زوال شروع ہواتھا۔لیکن فنون لطیفہ کا سفر بہتے پانی کی طرح جاری رہا۔جمیل نقش نے رومانوی مصور ی کو اس کی انتہاﺅں تک پہنچایا ۔ابتدا میںمنی ایچر پینٹنگ کی تعلیم انہوں نے اُستاد شریف سے حاصل کی لیکن بعد میں انہوں نے اپنے کینوس کو عورت اور کبوترکا استعارہ بنا لیا۔رومانوی مصوری میں اقبال مہدی بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔خوب صورتی کسی دوشیزہ میں ہو یا رخشِ رواں میں۔انہوں نے پورٹریٹ پینٹنگز یعنی صورت گری کو نیا انداز دیا۔
ظہورالاخلاق بھی جدید مصوری میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔کینیڈا میں پڑھاتے رہے لیکن بدقسمتی سے لاہور میں قتل کر دیے گئے اورمصوری کا ایک بلند میناراپنی تکمیل تک آنے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا۔پاکستانی مختصر نقاشی کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کا سہرا ظہورالاخلاق اور شازیہ سکندر کے سر جاتاہے جن کے فن پاروں کو دیکھ کر اقوامِ عالم پاکستانی آرٹ کی طرف متوجہ ہوئیں۔اسی سال شازیہ سکندر کی ایک پینٹنگ امریکا میں پانچ لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی۔جمیل نقش لندن میں اپنے رنگوں کے کمالات دکھا رہے ہیں جبکہ تصدق سہیل پینتالیس سال لندن میںگزارنے کے بعد واپس کراچی آ گئے ہیں۔ان کی ایک پینٹنگ کرسٹیز میں 35 ہزار ڈالر میں نیلام ہوئی۔
نائن الیون کے بعد پاکستانی آرٹ منظر میں حیرت انگیز انقلاب آیا ہے اور پاکستانی مصوروں کے کینوس سے اُبھرنے والی تصویروں سے ایسے رنگ جھلکنے لگے ہیں جو اس سے پہلے دنیا نے نہیں دیکھے تھے۔ایک پاکستانی مصور عمران قریشی کو نیویارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ کی اندرونی چھت پینٹ کرنے کے لیے کمیشن کیا گیا ہے۔ شاہد رسام جنہیں مشتاق احمد یوسفی نے اپنی تازہ کتاب میں پلکوں سے پینٹ کرنے والا مصور قرار دیا ہے ، انہیں ویٹی کن سٹی میں پوپ کا پورٹریٹ پینٹ کرنے کے لیے کمیشن کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ وہ ممتاز بھارتی شاعرگلزار کے ساتھ مل کر غالب سیریز پر بھی کام کر رہے ہیں ۔اس سے پہلے صادقین نے اپنی بنائی ہوئی تصویروں پر غالب کے شعر وں کی خطاطی کی تھی لیکن شاہد رسام نے غالب کے شعروں میں چھپے فکری رنگوں کو اپنے کینوس پر اس طرح اُتارا ہے کہ پینٹنگز کے اوپر اشعار لکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
گزشتہ دس سال کے دوران پاکستان اپنی تاریخ کے پرتشدد ترین دور سے گزرا ہے ۔ہمارے مصور اب اس دورِ ابتلا کو اپنے فن کے ذریعے للکار رہے ہیں۔وہ نہ صرف اس پرتشدد سیاسی و سماجی ماحول کی دستاویز کاری کر رہے ہیں بلکہ ملک میں آرٹ کے کردار پر سوالات بھی اُٹھا رہے ہیں۔خاص طور پر عمران قریشی کی تصویروں سے جو سُرخ رنگ جھلکتا ہے وہ پاکستانی معاشرے کے زخموں سے رِستا خون ہی تو ہے۔
سال ِ رفتہ کے دوران جمیل نقش کی پچھترویں سالگرہ تھی۔اس موقع پر ان کا نیا رنگ خطاطی کی صورت میں نظر آیا۔painted words کے عنوان سے ہونے والی نمائش میں بھی جمیل نقش کے نقوش میں رومانس تو وہی تھا لیکن عورت اور کبوتر کے بجائے ان کا رومانس صرف اور صرف خدا کے ساتھ تھا۔
پاکستانی مصور جہاں ملک سے باہر اپنے رنگوں کی بہاریں دکھاتے رہے ۔وہیںاندورنِ ملک بھی ان کے کینوس سے کہکشائیں ابھرتی اور رنگوں کی روشنیاں بکھیرتی رہیں۔اس سال کی انتہائی اہم نمائش ہمارے دور کے ماسٹرز میں شمار ہونے والے مصور تصدق سہیل کی تھی۔جس میں ہمیشہ کی طرح وہ خوابوں کی تصویر بناتے ہوئے دکھائی دیے۔ان کی تصویروں میںعصرِ حاضر کی بدصورتیوں پر گہرے طنز کے رنگ صاف نمایاں ہیں۔وہ کبھی صاحبانِ مسند کا مذاق اُڑاتے ہیں اور کبھی خود انسانی وجود کا۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں