دین اور معاشرہ ۔ 52

سیکولر طرز نظام اور دین کے درمیان تعلق

168760
دین اور معاشرہ ۔ 52

ہماری مذہبی زندگی میں بعض اوقات منشاء کے مطابق قبول کردہ اور بعض اوقات مرضی کے بغیر قبول کرنے پر مجبور ہونے والے اور کوئی خاص مدت کے بعد شروع شروع میں قبول کرنے پر مشکل ہونے والی چیزوں کے ساتھ یکسانیت اور ہم آہنگی قائم ہو جاتی ہے۔اسی طرح ہمارے دین و ایمان سے بعض چیزوں کے دور ہونے ، لیکن اس ضمن میں قصور وار کی تلاش کرتے وقت ، اکثر اوقات قصور وار بذات خود ہو سکنے کی سوچ سے گریز کرنے کردہ چیزوں اور موضوعات بھی پائے جاتے ہیں۔
نہ صرف اسلام بلکہ تمام تر دینوں کے خلاف واضح طور پر کرپشن پیدا کرنے اور ان کو عدم فعال بنانے کی کوششوں کا ذرائع سیکولرزم کے نام کا حامل ایک جدید نظریہ ہے۔ سیکولرزم معاشرے میں محض دنیاوی زندگی کو بالائے طاق رکھنے والی ایک تحریک و نظریہ ہے۔ یہ نظریہ مذہبی عناصر کو سماجی، قانونی اور سیاسی معنوں میں وضع کرنے کے بر عکس ، ان کو سماجی۔ قانونی اور سیاسی اعتبار سے علیحدہ کرتا ہے۔ سیکولزم بیک وقت اپنے اندر کئی ایک فرق اور نظریات کو بھی جگہ دیتا ہے۔
یہاں پر اس چیز کو واضح کرتے چلیں کہ سیکولزم ، لادینی یا پھر کفر نہیں ہے۔ تا ہم یہ نظریہ دو بنیادی اصولوں پر مبنی ہے۔ پہلا اصول حکومت کادینی اداروں سے قطعی طور پر علیحدہ ہونا ہے ۔ جبکہ دوسرا اصول مختلف دینوں اور اعتقاد کے حامل انسانوں کو قوانین کے مطابق مساوی حقوق دینا ہے۔ اگر اس دوسری شق کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ سیکولرزم انقلاب ِ فرانس کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔
خاصکر جدید ادوار میں سیکولر مملکتی نظریے کا دفاع کرنے والے عیسائی افراد اور طبقوں نے انجیل کی تعلیمات سے مختلف حمایتی عناصر ڈھونڈ نکالے تھے۔ اس ضمن ان کا نظریہ کچھ یوں تھا۔ "سیزر کا حق سیزر اور خدا کا حق خدا حاصل کرے گا"۔ ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سیکولرزم کی تجویز اور حمایت کی جاتی ہے۔ بعض بنیاد پرست عیسائی گروہ ان معلومات کی تشریح کرتے ہوئے سرکاری امور میں سیکولرزم کو دینی مفہوم کے مطابق جائز قرار نہ دیے جانے کا دفاع کرتے ہیں۔
سیکولر سوچ نے اخلاقی نظریے کو بھی اپنے زیر اثر لیا ہے۔ ان کے مطابق اخلاق کا معاملہ دین سے ہٹ کر ہے۔دینی بنیادوں پر مبنی نہ ہونے والی کئی اقدار کا بھی وجود ملتا ہے، جن کا زیادہ تر سیکولر اخلاق کے عنوان کے تحت جائزہ لینا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر دین یا پھر خدا کے وجود کو مسترد کرنے والے اخلاقی نظریات اور اسی طریقے سے دین یا خدا کو مانتے ہوئے اسے اخلاق کا واحد ذرائع نہ ہونے پر مبنی نظریات کو سیکولر ایتھکس زیر عنوان جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ عام معنوں میں سیکولر اخلاق ، دین کو غیر معمولی یا پھر الہی بنیادوں کے بجائے مثبت، علمی اور عقلی بنیادوں پر مبنی اخلاقی مفہوم کے لیے استعمال کردہ ایک اصطلاح ہے۔
سیکولر سوچ اصولی طور پر جب خدا کے وجود کو علیحدہ رکھتی ہے تو پھر سماجی اقدار بھی اسی لحاظ سے ایک مختلف سانچے میں ڈھلتی ہیں۔ مذہبی علوم کے لحاظ سے کی گئی تحقیقات میں مغربی معاشروں کی تعریف عمومی طور پر سیکولر معاشرے کے طور پر کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر مغربی معاشروں میں سرکاری دین کا وجود نہیں پایا جاتا اور مذہبی آزادی یعنی انسان کو اپنی مرضی کے دین کو قبول کرنے یا پھر کسی بھی دین و مذہب کو قبول نہ کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ چاہے جس قدر بھی مغربی ممالک میں دین سے وابستہ روایتی اخلاقی پیش نظر متنازعہ معاملات میں جگہ پاتے ہیں تو بھی سیاسی اعتبار سے دین کا فیصلہ کرنے کے میکانزم میں کسی قسم کا کوئی کردار نہیں پایا جاتا۔
عمومی خیال و عقیدے کے مطابق روشن خیالی تحریک کے سب سے بڑے نتیجے کے طور پر دینی اور غیر معمولی سطح کی اقدار کو ذرائع اور دلائل سے ہٹ کر زیادہ تر علمی، عقلمندانہ اقدار، ذرائع اور دلائل کو اہمیت دینے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے روشن خیالی ادوار کے آخری ایام اور بعد کے دور میں زندگی بسر کرنے والے سیکولر نظام کے حامیوں اور مفکرین نے دین کی نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ سماجی شعبوں میں بھی کم ازکم انصاف ، اخلاق اور اقدار کے منبع کے طور پر تفریق کرنے کی ضرورت کا دفاع کیا ہے۔
یہ سیکولرزم کو مملکتی ڈھانچے کے طور پر ملائیت کی جگہ کسی سیکولر حکومتی نظام کی شکل میں ترجیح دیئے جانے کا دفاع کرتے ہیں۔دراصل دینوں کے ایک بڑے حصے کو مملکت کے نظریے کے اعتبار سے سیاسی خصوصیات حاصل نہیں ہیں۔ ایک دوسرا بڑا حصہ، سیاسی خصوصیات اور سرکاری نظریے کے لحاظ سے ہوں یا نہ ہوں ، سیکولر اور جمہوری مملکتوں اور معاشروں کی مفاہمت سے ہم آہنگ ہے۔ اسے چاہے اسلامی حکومت کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا تو بھی سیکولرزم سے قانونی اور حقوقی طور پر علیحدہ کردہ مختلف دینی عقیدے اور مذاہب کا وجود ملتا ہے۔ یہ سرکاری اداروں کی لا دینی خصوصیت کو اپناتا ہے تو بھی قانونی بنیادوں کے لحاظ سے دین کے ایک ذرائع کو تشکیل دینے کا دفاع کیا جاتا ہے۔
دین ِ اسلام میں اس کا عمومی تصور کچھ یوں ہے: دین و مذہب پر مبنی کوئی طرز انتظامیہ موجود نہ ہو تو بھی قوانین اور معیار کا تعین کرنے میں دینی اصولوں کو بالائے طاق رکھنا لازمی ہے۔ سیکولر نظام وضع کرنے کے معاملے میں اسلامی نظریات پر مبنی اصول مسلمانوں کے دنیا وی کاموں سے دور نہ ہٹنے کی اپیل پر مبنی ہیں۔تا ہم یہ مغربی معیار کے حامل اور دین اور دینی افکار کو نظر انداز کرنے والے سیکولر نظام کے حوالے سے متنبہ بھی کرتے ہیں۔ سیکولرزم کو ایک دنیاوی نظریے کے طور پر انسانوں کے ضمیر تک ہاتھ بڑھا سکنے والے ایک نظام کی نظر سے دیکھنے کے خواہاں سیکولر نظام کو اسلام پسند نہیں کرتا۔
ان تمام تر باتوں کے باوجود دنیا بھر کے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیکولرزم کی طرف سرکنے، سیکولر طرز زندگی کے امہ کو اپنے زیر اثر لینے سے تمام تر دینوں کو پریشانی لا حق ہے۔ اور اسلامیت پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ بات بھی بے جا نہیں ہے کہ اس قسم کے اثرات کے نتیجے میں مسلم اُمہ میں جدید طرزِ زندگی کو اپنانے والوں انسانوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ در اصل یہ صورتحال مذکورہ پریشانی کا منبع ہے۔فطری طور پر اس مؤقف کے بر عکس سیکولرزم کے خلاف انتہا پسند اسلامی تحریکوں نے بھی جنم لیا ہے۔ اس بنا پر یہ کہنا ممکن ہے کہ سیکولرزم نے مسلم اُمہ کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں