دین اور معاشرہ ۔ 51

بسم اللہ پڑھنے کی برکت

164477
دین اور معاشرہ ۔ 51

اسلامی ثقافت کے مطابق کام شروع کرتے وقت پہلا عمل رحمان و رحیم اللہ تعالی کا ذکر کرنا ہے۔در اصل یہ چیز کام کے آغاز اور نتیجے میں برکت کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔کام شروع کرتے وقت با شعور ہونا، ہر چیز کو پرکھنا انسانوں میں تازگی اور کام کرنے کی ہمت و آرزو کا ذرائع ثابت ہوتا ہے۔اسلامی ثقافت میں ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا کہا جاتا ہے۔اس عمل درآمد کی تاریخ جیسا کہ قرآن کریم نے واضح کیا ہے حضرت نوح ؑ کے دور سے تعلق رکھتی ہے اسی طرح پیغمبر حضرت سلیمان ؑ کے ایک ملکہ کو تحریر کردہ خط میں بھی بسم اللہ لکھے جانے کا کہا جاتا ہے۔
معزز سامعین!اسلا م کے وجود، معلومات اور قدر و قیمت کا اظہار ہونے والے بسم اللہ کے ذریعے انسان ہونے کے شعور کی بدولت اپنی زندگی کو با معنی بناتا ہے۔ چاہے دنیاوی ہو یا پھر آخرویت مسلمان شخص ہر جائز اور بامعنیٰ کام سے قبل بسم اللہ پڑھتے ہوئے اللہ تعالی کو یاد کرتا ہے ، یہ اللہ تعالی کی وحدیت اور اس کا غلام ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
بسم اللہ عام معنوں میں کسی اچھے کام کے آغاز میں اللہ تعالی کو یاد کرنے اور خصوصی طور پر "رحمان و رحیم ہونے والے اللہ کے نام پر مبنی ہے۔"ہر جائز اور با معنی کام سے قبل بسم اللہ پڑھنا نبی اکرم کی وساطت سے نسل در نسل چلا آنے والا ایک عمل درآمد ہے۔ اسلام سے قبل عربوں میں یہ عمل کافی عام تھا۔ یہ نکتہ کافی اہم ہے کہ قرآن کریم کے نازل ہونے کے وقت بھی بسم اللہ کی طرح کا مفہوم ہونے والی آیات بھیجی گئی تھیں۔
مسلمان بسم اللہ کہتے ہوئے اپنے نام پر یا پھر کسی دوسرے انسان کے نام پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالی کے نام پر اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی امید باندھتے ہیں اور اس کی اجازت سے کام شروع کرنے کا اظہار کرتے ہیں۔بسم اللہ کہنے والا مومن شخص اللہ تعالی کی کثیر رحمت اور بخشش کرنے کی خصوصیت کی تشریح کرنے والے رحمان و رحیم الفاظ کو کہتے ہوئے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس کی تمام تر باتوں میں اللہ تعالی کی فضیلت موجود ہے۔ اس کی رحمت و ہمدردی کی وساطت سے دنیا و آخرت میں خوشنودی سے فیض یاب ہونے کی تمنا کرتا ہے۔ اور وہ جو کوئی بھی با معنی اور نیک کام کی نیت باندھتا ہے اس کے لیے لازمی قابلیت و طاقت کا حاجت مند ہونے کا اظہار کرتا ہے۔
بسم اللہ کے ساتھ کام شروع کرنا شخص لامتناہی طاقت کے مالک اپنے رب کی ہمیشہ نگرانی میں ہونے کا احساس رکھتا ہے۔ اس طرح سر انجام دیے جانے والے ہر کام اور برے کام سے اجتناب برتنے کی بدولت ثواب کماتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: کہ میں مومن حضرات کے اعمال پر حیران ہوتا ہوں۔ چونکہ مومنوں کا ہر کام اچھائی کا حامل ہوتا ہے۔ اور اس طرح کے خیراتی کام مومنوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔کیونکہ اگر کسی مومن کو اللہ تعالی مال و دولت عطا کرتا ہے تو یہ اس کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کے اعمال پاک دامنی پر مبنی ہوتے ہیں۔اگر اس کے سر پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو یہ اس کے سامنے صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ چیز بھی اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔ اس بنا پر ایمان پختہ ہونے والا اور ہر کام اس شعور اور فہم کے ساتھ سر انجام دینے والا شخص نفع میں رہتا ہے۔
بسم اللہ کی اہمیت کا اجاگر کرنے والی کئی حدیثیں بھی پائی جاتی ہیں۔ہمارے پیغمبر ﷺ ارشاد فرامتے ہیں کہ بسم اللہ کے بغیر شروع کیا جانے والا ہر کام بے برکت اور غیر نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے ۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ہر بامعنی کام کو شروع کرنے سے قبل ربِ اعلی کو یاد رکھنا اس کام کی برکت و قدرو قیمت میں اضافے اور احسن طریقے سے مکمل ہونے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ بسم اللہ پڑھے بغیر کیے گئے کام برکت سے محروم اور اچھے نتائج سے دور رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے بسم اللہ ہر اچھائی کی کنجی ہے۔
مسلمانوں کو ہر کام سے قبل بسم اللہ کی اہمیت کی یاد دہانی کرانے والے حضرت محمد ﷺ بذات خود بھی ہر کام کا آغاز بسم اللہ کہتے ہوئے کرتے تھے۔ مثلاً آپ کھانا تناول کرنے سے قبل ضرور بسم اللہ کہتے تھے۔ اور لوگوں کی اس چیز کی تلقین کیا کرتے تھے۔ اور کسی درد اور مرض کا سامنا ہونے کے وقت بھی اللہ تعالی کا ہی ذکر کرتے ہوئے تکلیف سے نجات پانے کی دعا کرنے کا ارشاد فرماتے تھے۔
بسم اللہ کے استعمال کے حوالے سے احادیث شریف میں تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے۔ در حقیقت با معنیٰ، اہم، شعورانہ امور کے وقت بسم اللہ کہنا سنت ہے۔ تا ہم جرم اور گناہ کے زمرے میں آنے والے کاموں کے مرتکب ہوتے وقت بسم اللہ کہنا ایک درست فعل نہیں ہو گا۔
اسلامی علماء بسم اللہ کو بعض اوقات فرض، سنت اور واجب ہونے کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کا نام لینا فرض ہے۔ اسی طرح شکار کرنے کی خاطر جانور روانہ کرنے اور جنگ میں اسلحہ استعمال کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا فرض ہے۔ قرآن کریم تحریر کرتے وقت سورۃ توبہ کے علاوہ تمام تر سورتوں کے آغاز پر بسم اللہ تحریر کرنا فرض کے زمرے میں آتا ہے۔ بعض علماء کے مطابق اگر جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔ نماز کے علاوہ قرآن کریم پڑھتے وقت بسم اللہ سے شروع کرنا علماء کی اکثریت کے مطابق سنت ہے۔ حنفی مذہب کی رو سے نماز کی ادائیگی کے دوران ہر رکعت میں فاتح پڑھنے سے پہلے دل سے بسم اللہ کہنا سنت ہے۔ اسی طرح شافی مذہب کے مطابق اس کو با آواز یا اندر سے پڑھنا فرض ہے۔
سامعین۔۔۔۔
اس موضوع کا لب لباب کچھ یوں ہے۔بسم اللہ مسلمانوں کی ثقافت و تہذیب کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ تمام تر مسلم امہ دستر خوان پر بیٹھتے ہی بسم اللہ کہتی ہے۔ جس سے کھانے میں برکت و فضیلت پیدا ہوتی ہے، سوتے وقت اور بیدار ہوتے وقت بسم اللہ کہنا ایک احسن عمل ہے۔ گھر اسے کا ورد کرتے ہوئے لوٹنا اور باہر نکلنا انسان کو شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ تمام تر دعائیں اسی سے شروع ہوتی ہیں۔ مساجد کے اندر سب سے بہترین جگہ پر بسم اللہ کو بڑے اہتمام اور خوش خطی کے ساتھ کندہ کیا جاتا ہے۔ بیمار لوگ اسی کی وساطت سے شفا حاصل کرتے ہیں۔
سامعین اس کے ساتھ ہی۔۔۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں