عالمی ایجنڈا۔90

135875
عالمی ایجنڈا۔90


اسوقت دنیا کو درپیش اہم ترین مسائل میں سے ایک دہشت گرد تنظیم داعش ہے جس کیخلاف جدوجہد کےطریقہ کار پر غور کیا جا رہا ہے ۔عالم اسلام اور عالم مغرب داعش کے مسئلے کو سمجھنے کی کوششیں کر رہاہے ۔ویلز میں منعقدہ نیٹو کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کے ا ہم ترین موضوع کا تعلق داعش کیخلاف جدوجہد تھا۔اس اجلاس کے فوراً بعد امریکہ کے صدر باراک اوباما نے جدہ میں سنی ممالک کا اتحاد تشکیل دینے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا ۔ صدر اوباما کے چار شقوں پر مشتمل حکمت عملی کی حمایت کرنے والے ممالک نے اجلاس کے اختتام پر ایک متن پر دستخط کیے ۔اس حکمت عملی کی رو سے اتحاد میں شامل ممالک کے طیارے داعش کی مسلح قوت کو تباہ کریں گے ۔عراق اور شام کی بری افواج کی حمایت حاصل کی جائے گی اور داعش میں نئے دہشت گردوں کی شمولیت کی روک تھام کے لیےسرحدوں پر کنٹرول کو بڑھایا جائےگا ۔متاثرین کے تحفظ کے لیے متعلقہ ممالک کو مالی امداد فراہم کی جائے گی اور مہاجرین اور مشکلات کا سامنا کرنے والے گروپوں کی انسانی امداد کی جائے گی ۔
اگرچہ صدر اوباما کی یہ حکمت عملی انتہائی جاذب نظر آتی ہے مگراس حکمت عملی کو پہلے روز سے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔مثلاًجن ممالک کو اس حکمت عملی میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا ان میں سے بعض ممالک نے اعتراضات کیے ہیں ۔ جرمنی نے فوجی کاروائی میں شامل نہ ہونےکا اعلان کیا ہے جبکہ ترکی نے جدہ اختتامی اعلامئیے پر دستخط نہیں کیے ہیں ۔علاقائی ماہرین کیمطابق اوباما کی اس حکمت عملی میں اہم خامیاں موجود ہیں ۔پی ایڈ بلیو کے سروے کیمطابق 53 فیصد امریکیوں کےخیال میں صدر اوباما کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو گی ۔اس بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس حکمت عملی پر کس طرح عمل درآمد ہو گا اور یہ کن ممالک کیطرف سے چلائی جائے گی ۔کون کون سے ممالک بری اور فضائی کاروائی میں حصہ لیں گے اور کاروائی کے اخراجات کون سے ممالک ادا کریں گے ۔مختصراً یہ کہ اس حکمت عملی کے کامیاب ہونے یا نہ ہونے اور داعش کیخلاف جدوجہد کے کسقدر حقیقت پسنداور موثر ہونے کا موضوع زیر بحث ہے ۔اس موضوع پر مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا جائزہ 

صدر اوباما کی حکمت عملی میں ایک خامی اور ایک مسئلہ موجود ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو فوجی یا طاقت کے زور سے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔داعش کے دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے لیے بری اور فضائی کاروائیوں سے علاقے میں تشدد میں اضافہ ہو گا ۔ردعمل کے طور پر اس تنظیم کو مزید مقبولیت حاصل ہوگی اور تنظیم میں شرکت بڑھ جائے گی ۔حکمت عملی میں موجود خامی یہ ہے کہ داعش کو معرض وجود میں لانے والے ذرائع کے بارے میں کوئی جائزہ موجود نہیں ہے ۔اس حکمت عملی کیساتھ مسئلے کی وجوہات کے بجائے نتائج سے بر سر پیکار ہے ۔یعنی اس حکمت عملی کا مقصدلارووں سے بھرے ہوئے دلدل کو خشک کرنے کے بجائے مچھروں کو مارنا ہے ۔
دراصل داعش ایک مسئلہ نہیں بلکہ ایک نتیجہ ہے ۔ عالمی سطح پر شام اور عراق میں اپنائی جانے والی غلط پالیسیوں ،مغربی اور اسلامی ممالک کے ناکام عمل درآمد ، 1990 کے بعد عراق میں پیدا ہونے والے انتظامیہ کے فقدان اور 2011 کے بعد شام میں طاقت کے توازن کے بگھڑنے سے داعش معرض وجود میں آئی ہے ۔ داعش امریکہ کے عراق پر قبضے کے بعد اور شام میں خانہ جنگی کیوجہ سے مرکزی اتھارٹیوں کے خاتمے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طاقت ور بنی ۔اگر عراق اور شام کے ڈکٹیٹر اپنے وجود کو برقرار رکھتے یا پھر ان ممالک میں ظالم کٹیٹروں کی جگہ مشروع حکومتیں برسر اقتدار آتیں تو داعش جیسی تنظیمں جنم نہ لیتیں ۔داعش کے وجود میں آنے میں عراق اور شام میں طاقت کا خلاء پیدا کرنے والے مغربی ممالک اور علاقائی ممالک کا ہاتھ ہے ۔مثلاً داعش کے 2013 میں معرض وجود میں آنے میں مغربی ممالک سے آنے والے جنگجووں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔امریکہ،برطانیہ ،جرمنی اور فرانس سے آنے والے جنگجووں کیطرف سے داعش کے پھیلاو اور اسے طاقتور بنانے کی حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔مغربی ممالک سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک میں پرورش پانے والے تعلیم یافتہ ان نوجوانوں نے داعش میں کیوں شرکت کی ہے ۔اگر یہ مغربی ممالک کی منظم خفیہ کاروائی نہیں ہے یا پھر مغربی ممالک نے انھیں داعش میں شامل ہونے پر رضامند نہیں کیا ہے تو پھر مغربی ممالک میں نوجوان نسل کی تربیت کا موضوع زیر بحث آ سکتا ہے ۔اگر صورتحال کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائےتو یہ کہنا ممکن ہے کہ داعش مغربی ممالک کی طرف سے کھڑا کیا جانے والا سنجیدہ مسئلہ ہے ۔دوسری طرف اسلام اور قران میں جگہ نہ پانے والے داعش جیسی تنظیموں کے نظریات کے مالک انسان کس طرح سامنے آتے ہیں ۔اسلامی تعلیمات اور نظریات ایسے مسئلے کا کس طرح سبب بن سکتے ہیں ۔اسلام امن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے نہ کہ قتل و غارت گری کا ۔ اگر داعش کی کاروائیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے توپھر اس کی اسلام سے وابستگی کا امیج کیونکر پیدا ہو ا ہےاس مسئلے کی بھی تحقیق کی جانی چاہئیے ۔
نتیجتاً یہ داعش کیخلاف صحیح حکمت عملی اپناتے ہوئے جدوجہد کرنے اور صدر اوباما کیطرف سے تشکیل دئیے جانے والے اتحادی گروپ میں شامل ممالک کو اپنا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔20 ویں صدی کے آغاز سے لیکر ابتک عدم استحکام کے شکار مسلمان اور مغربی ممالک کو اس دور پر نظر ثانی کرنے اور جدید عالمی سسٹم اور اس سسٹم میں جگہ پانے والے ممالک کی 500 سالہ تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کرنے میں فائدہ ہو گا ۔تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی کہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں سے لاحق خطرات اور مسائل مغربی ممالک کی ترقی اور اسلامی تہذیب کے زوال سے وابستہ ہیں ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں