نامور ترک شخصیات۔ 32

چنگیز داع جی: کریمیا کے ترکوں میں سے نامور مصنف

85723
نامور ترک شخصیات۔ 32

" نامور ترک شخصیات " میں آج ہم کریمیا کے ترکوں میں سے نامور مصّنف 'چنگیز داع جی ' کے بارے میں آپ سے بات کریں گے۔
چنگیز داع جی 9 مارچ 1919 میں کریمیا کے قصبے گُرزُف میں پیدا ہوئے۔ چنگیز کی پیدائش سے کچھ عرصہ بعد ان کا کنبہ کزل تاش قصبے میں منتقل ہو گیا ۔ چنگیز کے بچپن کا زیادہ تر حصہ اس قصبے میں گزرنے کی وجہ سے وہ خود کو کزل تاش کے رہائشی کے طور پر متعارف کرواتے رہے۔ ان کے والد امیر حسین داع جی پہلے کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن سوویت انقلاب کے بعد انہوں نے بلدیہ میں کام کرنا شروع کر دیا۔ ان کی والدہ فاطمہ خانم امیر سالی لیر خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔


چنگیز کم عمری سے ہی ادبیات کی طرف رجحان رکھتے تھے اور ان کے چچا سعید عمر نے انہیں عمر سیف الدین کی کہانیاں سُنا سُنا کر ان کے اس شوق کو اور بھی ہوا دی۔ لیکن دیگر ترکوں کی طرح مشکل دور ان کا بھی منتظر تھا۔


1920 کی دہائی میں سوویت انتظامیہ کی طرف سے ترکوں کو روسی بنانے اور کریمیا کے علاقے کو ترکوں سے پاک کرنے کی پالیسی کے نتیجے میں متعدد کریمین کنبے اپنے آبائی وطن کو ترک کرنے پر مجبور ہو گئے اور متعدد روشن فکر افراد کو حراست میں لے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔1931 میں چنگیز کے والد کو بھی روسی فوجیوں نے گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا اور ایک سال کی قید و بند کے بعد جب ان کے والد رہا ہوئے تو یہ کنبہ آق مسجد کے علاقے کی طرف نقل مکانی کر گیا۔ چنگیز نے اپنے تعلیمی دور کا آغاز آق مسجد سے کیا۔ اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ چنگیز نے 'تُک آئی'، 'بکر چوبانزادے'، 'اے بہوک' اور پُش کین جیسے شاعروں کے کلام کو بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے خود بھی لکھنا شروع کر دیا۔ ان کی پہلی تصانیف گینچ لک جریدے میں شائع ہوئی اور اس کے بعد کریمیا۔تاتار رائٹرز یونین کے رسالے "مجموعہ ادبیات" میں بھی شائع ہونے لگے۔


ادبی لحاظ سے مصروف چنگیز داع جی نے 1938 میں مڈل اسکول کی تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد کریمیا پیڈاگوجیس انسٹیٹیوٹ کے شعبہ تاریخ میں داخلہ لے لیا۔ان دنوں چنگیز گیوسیوے سے آنے والے ایک اور طالبعلم سے متعارف ہوئے ۔ یہ طالبعلم مستقبل میں کریمیا خانوں کی تاریخ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔نوجوان چنگیز اس چیز سے اتنے متاثر ہوئے کہ آنے والے دنوں میں ان کی تحریروں پر تاریخ کا گہرا اثر رہا اور اسی اثر کی وجہ سے انہوں نے "نوجوان تیموچین" نامی تصنیف تحریر کی۔


چنگیز ، انسٹیٹیوٹ کی دوسالہ تعلیم کو ختم کرنے کے بعد وہ فوجی تربیت کے لئے چلے گئے ۔یہ دوسری عالمی جنگ کا دور تھا، چنگیز ٹرین کے ذریعے کریمیا سے اوڈیسا پہنچے ۔ ایک مختصر فوجی تربیت کے بعد وہ ٹینک یونٹ میں لیفٹیننٹ بن گئے اور انہیں یوکرائن کے جنگی فرنٹ پر متعین کر دیا گیا۔ 1941 میں جرمنوں اور ریڈ انڈینز کے درمیان جاری جنگ میں وہ جرمنوں کے قیدی بن گئے۔ یہ دور ان کے لئے بھوک، پیاس اور غیر یقینی کا دور تھا۔ کچھ عرصے کے بعد جرمنوں نے ریڈ انڈینز کے خلاف لڑانے کے لئے غیر روسی قیدی فوجیوں سے ایک ریجمنٹ تیار کی۔ چنگیز ترکستان ریجمنٹ میں شامل تھے۔ جنگ میں جرمنی سٹالن گارڈ میں شکست سے دوچار ہوئے اور اس جنگ میں زخمی ہونے کی وجہ سے چنگیز کو علاج کے لئے پولینڈ بھیج دیا گیا۔ ہسپتال میں ان کی ملاقات اپنی مستقبل کی اہلیہ ریگینا بی کلیزیسکوئیلا نرس کے ساتھ ہوئی۔


چنگیز داع جی ریگینا کے ساتھ شادی کے بعد 1945 میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ برلن اور تقریباً ایک سال بعد لندن منتقل ہو گئے۔اب زندگی ان کے لئے زیادہ آسان تھی اور وہ ایک طرف نئی زندگی کی بنیادیں رکھ رہے تھے تو دوسری طرف ایک سے بڑھ کر ایک شاندار ادبی تصانیف رقم کر رہے تھے۔


انہوں نے کریمیا اور ترکستان کے ترکوں کے المیوں کو ادبی شکل دی۔
چنگیز نے اپنی تصانیف کو ترکی زبان میں لکھااپنے اشعار کے ساتھ ساتھ کریمیا کے ترکوں کے لوک ورثے کے متعلق لوازمات کو بھی شائع کر کے عوام کی خدمت کی۔


22 ستمبر 2011 کو انہوں نے وفات پائی اور 69 سال کی دوری کے بعد انہیں ان کے آبائی گاؤں کزل تاش میں سپردِ خاک کیا گیا۔ چنگیز نے اپنے پیچھے ایک بیٹی آرزو کو چھوڑا۔


اپنی تصانیف کی وجہ سے اس بڑے شاعر کو انعامات سے نوازا گیا۔چنگیز داع جی کی تصانیف میں سے کچھ کے نام اس طرح ہیں:
**خوفناک سال۔۔۔ 1956
**وطن گنوانے والا آدمی ۔۔۔ 1957
**وہ بھی انسان تھے۔۔۔1958
**وہ زمین ہماری ہے۔۔۔1966
**واپسی۔۔۔1968
** نوجوان تیموچین۔۔۔1969
**موت اور خوف کے دن۔۔۔1970
** بادام کی شاخ سے لٹکے بچے۔۔۔1972
**ٹھٹھرتی گلیاں۔۔۔1972
**اپنی ماں کے نام خطوط۔۔۔1988
**ساتھی۔۔۔1992
**ہم اس راستے سے اکٹھے گزرے۔۔۔1996
**مسٹر مارکوس برٹون کا کُتا۔۔۔1998
**مسٹر جان مارپل کا آخری سفر۔۔۔1998
**یادیں اور عکس۔۔۔ 4 جلدیں 1990۔1993
**میں اور میرے اندر کا آدمی۔۔۔1994
**یادوں میں چنگیز خان۔۔۔1998


ٹیگز:

متعللقہ خبریں