ہم بحیثیت قوم کورونا وائرس کا مقابلہ کریں گے اور اس کے خلاف جنگ جیتیں گے: وزیراعظم کا قوم سے خطاب

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بھی شہر بند کرنے کی ایک تجویز تھی لیکن پاکستان کے حالات امریکہ سے مختلف ہیں۔ ہمارے ملک میں غربت ہے اور مشکل معاشی صورتحال سے نکل رہے ہیں، 2019ءہمارے لئے ایک مشکل سال تھا

1380256
ہم بحیثیت قوم کورونا وائرس کا مقابلہ کریں گے اور اس کے خلاف جنگ جیتیں گے: وزیراعظم کا قوم سے خطاب

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم کورونا وائرس کا مقابلہ کریں گے اور اس کے خلاف جنگ جیتیں گے، وائرس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیںہے۔

انہوں نے  کہا کہ  ہمیں معلوم تھا کہ چین میں وائرس پھیلا ہے تو یہ پاکستان بھی پہنچے گا،کورونا کے معاملہ پر افراتفری پھیلانے کی ضرورت نہیں یہ وائرس ایک زکام ہے جو تیزی سے پھیلتا ہے،کورونا وائرس سے 97 فیصد مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں، دنیا میں اب تک ایک لاکھ 90 ہزار افراد وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں،کورونا سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیںِِ، معیشت کے منفی اثرات پر حکومت نظر رکھے ہوئے ہے، بلوچستان کے ویران علاقے میں اقدامات پر بلوچستان حکومت اور پاک فوج کا کردار قابل ستائش ہے،وباءسے نمٹنے کیلئے چین کے تجربات سے استفادہ کریں گے،ہیتلھ ورکرز اور طبی عملے کو تمام سہولتیں فراہم کریں گے،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مشکلات کا احساس ہے ،چین کے شہر ووہان میں مقیم پاکستانی طلباءکی مشکلات کا بھی ادراک ہے،خدشہ ہے کہ بعض عناصر ذخیرہ اندوزی کی کوشش کریں گے ذخیرہ اندوزوں کو خبردار کرتا ہوں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی،ریاست ذخیرہ اندوزوں سے کوئی رعایت نہیں برتے گی، کورونا سے بچاﺅ کیلئے شہر بند کرنے کی تجویز پاکستان کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتی، عوام وباءسے بچنے کیلئے بڑے اجتماعات میں جانے سے گریز کریں، حفاظتی تدابیر اور آگاہی مہم کے حوالہ سے علماءکرام کو کردار ادا کرنا چاہیئے۔

 انہوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کورونا کے خوف کی وجہ سے افراتفری نہیں پھیلنی چاہئے، 15 جنوری کو ہم نے فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے کیا اقدامات کرنے ہیں، چین میں جب یہ وائرس پھیلا تو ہمیں یہ معلوم تھا کہ چین سے بھی لوگ پاکستان آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وائرس ایک قسم کا زکام ہے اور یہ تیزی سے پھیلتا ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی اطمینان کی بات ہے کہ 97 فیصد مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں اور 4 سے 5 فیصد افراد کو جنہیں کھانسی اور زکام کی کیفیت کا سامنا ہوتا ہے ہسپتال جانا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک دنیا میں ایک لاکھ 90 ہزار افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے ہسپتالوں میں سہولیات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کا تیزی سے پھیلاﺅ خطرناک ہے اور 100 میں سے 3 فیصد مریضوں کیلئے یہ خطرناک ہوتا ہے اور یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ عمر رسیدہ ہوتے ہیں اور ان کے اندر قوت مدافعت کم ہوتی ہے، یا وہ سینے کی تکلیف اور دوسری کسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم چین سے رابطے میں ہیں، ایران میں قم شہر سے یہ وباءشروع ہوئی اور وہاں پر پاکستانی زائرین بھی متاثر ہوئے، ایران کی حکومت سے بھی ہمارا رابطہ ہے جو زائرین بلوچستان کے راستے واپس آ رہے تھے انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا اور ویران علاقے میں سہولیات کی فراہمی ایک مشکل کام تھا لیکن اس سلسلے میں بلوچستان کی حکومت اور پاک فوج کے انتظامات قابل ستائش ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم دنیا کی صورتحال کو بھی مسلسل دیکھ رہے ہیں، 15 فروری کے بعد سے 9 لاکھ افراد کی ایئر پورٹس پر سکریننگ کی گئی ہے، 26 فروری کو کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا، ہمیں یہ اندازہ تھا کہ یہ و باءتیزی سے پھیلے گی، پچھلے ہفتے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا اور اس وقت تک 20 مریض سامنے آ چکے تھے۔ ہم نے اس اجلاس میں دنیا کا ردعمل بھی چیک کیا، اٹلی نے اس معاملے پر پہلے کچھ نہیں کیا لیکن بعد میں ملک میں لاک ڈاﺅن کر دیا، برطانیہ کی حکمت عملی اس سے مختلف تھی۔ امریکہ نے بھی پہلے کچھ نہیں کیا لیکن بعد میں پورے کے پورے شہر بند کر دیئے۔

 انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بھی شہر بند کرنے کی ایک تجویز تھی لیکن پاکستان کے حالات امریکہ سے مختلف ہیں۔ ہمارے ملک میں غربت ہے اور مشکل معاشی صورتحال سے نکل رہے ہیں، 2019ءہمارے لئے ایک مشکل سال تھا، بیروزگاری اور مہنگائی کے مسئلے سے بھی نمٹنے کیلئے ہم اقدامات کر رہے ہیں، ہم نے سوچا کہ اگر شہر بند کر دیئے تو حالات بہت بگڑ جائیں گے اور کورونا سے بچانے کے لئے یہ قدم اٹھایا تو لوگ بھوک کا شکارہو جائیں گے۔

 وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے پھر ایسی جگہیں بند کرنے کا فیصلہ کیا جہاں لوگ زیادہ جمع ہو سکتے ہیں جن میں کرکٹ میچز، سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں شامل ہیں جہاں پر چھٹیاں کر دی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے قومی رابطہ کمیٹی قائم کر دی ہے جو وزراءاعلیٰ سے بھی رابطے میں رہے گی۔ اس کے علاوہ قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے کو بھی متحرک کر دیا ہے اور اسے فنڈز دیئے ہیں اور ضروری سامان بھی مہیا کیا جائے گا۔ ماسک ہمارے پاس پاس موجود ہیں، وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہو گی اس کیلئے بھی آرڈرز دے دیئے ہیں، طبی ماہرین کی ایک کور کمیٹی اس حوالے سے مشاورت فراہم کر رہی ہے۔ دنیا کے ردعمل کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی چین کا دورہ کر رہے ہیں اور ہم کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے چین کے تجربات سے بھی استفادہ کریں گے۔ اس وائرس نے پھیلنا ہے اور دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن ممالک کے پاس بہترین ہسپتال اور میڈیکل نظام موجود ہے وہاں پر بھی یہ وائرس پھیل رہا ہے، ہم نے اس کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی رابطہ کمیٹی کے علاوہ ہم نے اقتصادی کمیٹی بھی قائم کی ہے جس کا مقصد کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر پڑنے والے حالات کا جائزہ لینا ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمتیں گر گئی ہیں اور کورونا وائرس سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، کافی عرصے بعد ہماری برآمدات میں اضافہ ہو ہوا ہے، مارچ اور فروری میں ہماری برآمدات بڑھی تھیں، موجودہ صورتحال کی وجہ سے برآمدات پر بھی اثر پڑے گا۔ کاروبار بھی متاثر ہو گا کیونکہ شادی ہالز وغیرہ پہلے ہی بند کر دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے حوالے سے بھی ہم آئی ایم ایف سے بات کرینگے کیونکہ ہمیں اپنے معاشی شعبوں کو ان حالات میں ریلیف دینا پڑے گا۔ اقتصادی کمیٹی متاثر ہونے والے شعبوں پر نظر رکھے گی اور ان کی مدد کیلئے تجاویز دے گی، کمیٹی دیکھے گی کہ مہنگائی نہ ہو اور کھانے پینے کی اشیاءکی فراوانی ہو۔ ذخیرہ اندوزوں کو خبردار کرتا ہوں کہ ان کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور ریاست ذخیرہ اندوزوں سے کوئی رعایت نہیں برتے گی اور انہیں سزا دی جائے گی جو عوام کی تکلیف سے فائدہ اٹھائیں گے۔ کیونکہ پہلے بھی چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کر کے مہنگائی کی گئی تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس کیخلاف کوئی بھی حکومت عوام کی حمایت کے بغیر نہیں لڑ سکتی، ہم نے احتیاط سے کام لینا ہے، بخار، زکام اور کھانسی کی صورت میں فوراً ٹیسٹ نہ کروائیں۔ امریکہ سمیت دنیا میں کہیں بھی اتنی بڑی تعداد میں ٹیسٹ کرانے کی صلاحیت نہیں ہے، کورونا وائرس سے گھبرانا نہیں احتیاط ضروری ہے۔ ہم نے احتیاط برتنی ہے اور ذمہ داری سے کام لینا ہے۔ بڑے اجتماعات میں جانے سے گریز کرنا ہو گا اور 40 سے زائد لوگوں کے اجتماعات میں نہیں جانا چاہئے، بند کمروں میں بھی لوگوں کی موجودگی سے وائرس پھیل سکتا ہے، ہاتھ ملانے سے یہ وائرس تیزی سے پھیلتا ہے، اس لئے ہاتھ ملانے سے پرہیز کرنا ہو گا اور صفائی کا خیال رکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والے افراد کو بھی احتیاط سے کام لینا ہو گا کیونکہ وائرس باہر سے آ رہا ہے۔ باہر سے آنے والے لوگوں کو دو ہفتے کے اندر علم ہو جائے گا کہ ان میں وائرس کی علامات ہیں کہ نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ معمولی زکام اور کھانسی کورونا وائرس نہیں ہے، جن لوگوں میں زکام کی علامات شدت اختیار کر جائیں انہیں ہسپتال جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں، بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور حضور اکرم نے بھی ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور ان کا فرمان ہے کہ احتیاط کرو اگر آپ کو ڈر ہے کہ آپ کا اونٹ نہ بھاگ جائے تو پہلے اس کو باندھ لو۔ انہوں نے کہا کہ ہیلتھ ورکرز، ڈاکٹروں اور طبی عملے نے کورونا کیخلاف جہاد کرنا ہے اور انہیں ہم تمام وسائل فراہم کرینگے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مشکلات کا بھی ہمیں احساس ہے اور سفارتخانوں کو پاکستانیوں کا خیال رکھنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ ووہان میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلباءاور یہاں ان کے والدین کی مشکلات کا ہمیں احساس ہے، انہوں نے کہا کہ چین نے کورونا کی وباءپر تقریباً قابو پا لیا ہے اور اب یہ وباءدنیا میں پھیل رہی ہے لیکن چین میں کم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علماءاور مشائخ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مشکل گھڑی کی صورتحال کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی کیلئے اپنا کردار ادا کریں کہ کس طرح ہم نے اس مشکل وقت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں اور صبر سے کام لینا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان کے خطاب کا مقصد قوم کو کورونا کی روک تھام کیلئے اقدامات کے حوالے سے اعتماد میں لینا ہے۔ کورونا کے معاملے پر افراتفری پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔



متعللقہ خبریں