" پادریوں کے ہاتھوں بچوں کی استحصالی" پاپائے روم معافی مانگنے کینیڈا پہنچ گئے

کینیڈا میں گرجے سے متصل نام نہاد رہائشی اسکولوں میں گزشتہ  سالوں کے دوران   زیرتعلیم  مقامی بچّوں کے ساتھ پادریوں کی بدسلوکی کے واقعات کی پریشان اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں اور مقامی لوگ ان غلط کاریوں پررومن کتھولک چرچ سے معافی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

1858801
" پادریوں کے ہاتھوں بچوں کی استحصالی" پاپائے روم معافی مانگنے کینیڈا پہنچ گئے

رومن کیتھولک کے روحانی پیشوا پوپ فرانسیس گزشتہ روزکینیڈا کے پانچ روزہ دورے پر مغربی صوبہ البرٹا کے شہر ایڈمنٹن پہنچ گئے ہیں۔

ان کے اس دورے کا خاص مقصد رومن کیتھولک  کلیسے میں  پادریوں کے مقامی بچّوں کے ساتھ ناروا سلوک پر معذرت طلب کرنا ہے۔

کینیڈا میں گرجے سے متصل نام نہاد رہائشی اسکولوں میں گزشتہ  سالوں کے دوران   زیرتعلیم  مقامی بچّوں کے ساتھ پادریوں کی بدسلوکی کے واقعات کی پریشان اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں اور مقامی لوگ ان غلط کاریوں پررومن کتھولک چرچ سے معافی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ایڈمنٹن ،پاپائے روم کے کینیڈا کے دورے کا پہلاپڑاؤ ہے جس  کے بعد وہ دو اور مقامات پر جائیں گے۔

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بہ نفس نفیس دوسرے حکام کے ساتھ  ان کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ وہ وہیل چیئر پر تھے۔

ان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب  کے دوران دیسی ڈھول پیٹے گئے ہیں اورنعرے بازی کی گئی ہے جبکہ ایک کے بعد ایک مقامی رہنماوں نے  پاپائے روم  کا استقبال اورتحائف کا تبادلہ کیا۔

پاپائے روم نے  اپنے ہمراہ طیارے میں سوارصحافیوں کو بتایا کہ ’’یہ ایک دعائیہ سفر ہے،انھوں نے خاص طور پرعمر رسیدہ افراد کے لیے دعاؤں پر زور دیا۔

واضح رہے کہ کینیڈا کے مقامی عناصر  محض معافی نامے  سے  زیادہ عملی تلاش میں ہیں،وہ ان بچّوں کی قسمت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں  جواقامتی اسکولوں سے کبھی گھروں کو نہیں لوٹے، وہ استحصال کرنے والوں کے کو انصاف کے کٹہرے میں لانے، متاثرین کو مالی معاوضہ دینے کا مطالبہ کررہے ہیں اور ویٹی کن میوزیم میں موجود دیسی نوادرات کی واپسی بھی چاہتے ہیں۔

کنفیڈریشن آف ٹریٹی 6 کے سربراہ جارج آرسینڈ جونیئر نے کہا کہ پاپائے روم  کی یہ معذرت ہمارے تجربات کی توثیق کرتی ہے اورگرجے کے لیے دنیا بھر کے مقامی لوگوں کے ساتھ مجروح تعلقات پرمرہم رکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے لیکن انھوں نے زور دے کر  یہ بھی کہا کہ یہ معاملہ یہیں  ختم نہیں ہوتا،ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور یہ ایک آغازہے۔

 



متعللقہ خبریں