امریکہ عراق میں کسی فوجی آپریشن میں حصہ نہیں لے گا
صدر امریکہ نے وائٹ ہاؤس سے عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے اہم اعلانات کیے ہیں
متحدہ امریکہ داعش کے عسکریت پسندوں کے حملوں کے باعث منقسم ہونے کا خطرہ پائے جانے والے عراق کو کس طرح کی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ چند روز میں کرے گا۔
امریکی صدر براک اوباما نے وائٹ ہاؤس میں کہا ہے کہ عراق میں شدت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے کارروائی کرنے کا فیصلہ کرنے میں انھیں چند دن لگیں گے تاہم امریکہ عراق میں اپنی افواج نہیں بھیجے گا۔
امریکی صدر نے عراقی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں کریں۔
باراک اوباما نے میڈیا کو بتایا کہ دولتِ اسلامیہ فی عراق والشام نہ صرف عراق اور اس کے عوام کے خطرہ ہے بلکہ وہ امریکی مفادات کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ عراق کو شدت پسندوں کےگروہوں کا زور توڑنے کے لیے اضافی مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکہ اب کی بار کسی فوجی منصوبے میں شرکت نہیں کرے گا۔
امریکی دفتر خارجہ سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایران سمیت عراق کے ہمسائیہ ممالک ان جھڑپوں میں فرقہ وارانہ فسادات کو شہہ دینے والے اقدامات سے اجتناب برتیں۔
اعلامیہ میں ایران اور عراق کے حوالے سے مذاکرات نہ کیے جانے اور دونوں ملکوں کے درمیان زیر بحث واحد موضوع کے جوہری پروگرام تک محدود ہونے کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔
پینٹا گون نے عراق میں ایرانی پاسداران ِ انقلاب کے فوجیوں کی موجودگی کی خبروں کو تصدیق کرنے والی کسی بنیاد کے موجود نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر امریکہ وزارت دفاع کے حکام نے اطلاع دی ہے کہ پینٹا گون خلیج بصرہ کو طیارہ بردار بحری جہاز روانہ کرے گا۔
متعللقہ خبریں
نتن یاہو کے بیان کہ امریکہ نے ان کو ہتھیار دینے سے انکار کر دیا ہے پر وائٹ ہاوس کا رد عمل
امریکہ اسرائیل کو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ مدد فراہم کرتا ہے