ترکی: روس پر پابندیاں مسائل کے وقتی التوا کے علاوہ کسی کام نہیں آئیں گی

یوکرائن بحران کو حل کرنے کے لئے مغرب کی طرف سے روس پر پابندیاں مسائل کے وقتی التوا کے علاوہ کسی کام نہیں آئیں گی: ابراہیم قالن

1782147
ترکی: روس پر پابندیاں مسائل کے وقتی التوا کے علاوہ کسی کام نہیں آئیں گی

ترکی صدارتی دفتر کے ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ یوکرائن بحران کو حل کرنے کے لئے مغرب کی طرف سے روس پر پابندیاں مسائل کے وقتی التوا کے علاوہ کسی کام نہیں آئیں گی۔

ابراہیم قالن نے جرمنی کے روزنامہ ڈی ویلٹ کے لئے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "روس پر پابندیاں لگانا بے فائدہ ہے۔ پابندیوں سے صرف اتنا ہو گا کہ مسائل کچھ عرصے کے لئے خاموش ہو جائیں گے۔ مسئلے کے حل کے لئے دوسرے فریق کے موقف کو سُنناا اور اسٹریٹجک اندیشوں کو سمجھنا زیادہ بہتر ہو گا"۔

اس سوال کے جواب میں کہ روس۔ یوکرائن بحران میں ترکی کس جگہ پر ہے؟ قالن نے 21 ویں صدی میں درپیش نئی مشکلات کی طرف اشارہ کیا اور کہا ہے کہ اسی وجہ سے ہمیں ایسے اصول اور قوانین تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن سے دونوں فریقین خود کو محفوظ محسوس کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ روس کے ہر مطالبے کو پورا کریں لیکن روسی فریق کی بات سُننا ضروری ہے"۔

انہوں نے کہا ہے کہ "نیٹو دنیا کا کامیاب ترین اور اہم ترین فوجی اتحاد ہے۔ ہم، نیٹو کے ایک کلیدی اہمیت کے حامل رکن ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم وسطی ایشیاء، قاقیشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ جیسے دیگر اتحادوں میں شامل نہیں ہوں گے یا پھر روس کے ساتھ یا چین کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہو گے"۔

قالن نے کہا ہے کہ ہم خارجہ پالیسی کو 360 درجے کے نقطہ نظر کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ ہم، ہماری طرف ہاتھ بڑھانے والے کا ہاتھ نہیں جھٹک سکتے۔ ہمارا جغرافیہ جہاں ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے وہاں اس کام میں ہماری مدد بھی کرتا ہے۔ یقیناً اس کا مطلب ہر معاملے میں اتفاق رائے بھی نہیں ہے۔ خواہ وہ روس ہی کیوں نہ ہو۔ ہم کریمیا کے الحاق کو تسلیم نہیں کرتے۔ روس کی شامی پالیسی اور لیبیا میں ویگنر فوجیوں کی حمایت نہیں کرتے لیکن ان وجوہات کی بنا پر فوری طور پر ایک دوسرے سے جنگ کرنے بھی مجبور نہیں ہیں"۔

صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ "جرمنی یورپ کا ایک اہم ملک ہے لیکن اس وقت ترکی۔ جرمنی تعلقات مطلوبہ درجے پر نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک شاندار صلاحیت موجود ہے۔ ہم مل کر بہت سی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے اسٹریٹجک مفادات اور تاریخی نقطہ ہائے نظر کی ترتیبِ نو پر مزید توجہ دینی چاہیے"۔



متعللقہ خبریں