یورپی یونین کی امیگریشن،اسلاموفوبیا اورمشرقی بحیرہ روم سےمتعلق پالیسیاں تضاد کا شکارہیں: شَن توپ

اسپین کا دورہ کرنے والے مصطفیٰ شن  توپ نے دارالحکومت میڈرڈ میں ترکی ، ہسپانوی اور پریس  کو بیانات جاری کیے ہیں

1708582
یورپی یونین کی امیگریشن،اسلاموفوبیا اورمشرقی بحیرہ روم سےمتعلق پالیسیاں تضاد کا شکارہیں: شَن توپ

ترکی کی  قومی اسمبلی  کے اسپیکر  مصطفیٰ شن  توپ نے یورپی یونین کی  ا  میگریشن کے مسئلے ، اسلاموفوبیا اور مشرقی بحیرہ روم کو متضاد ، غیر حقیقت پسندانہ اور غیر جانبداری سے دور  پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اسپین کا دورہ کرنے والے مصطفیٰ شن  توپ نے دارالحکومت میڈرڈ میں ترکی ، ہسپانوی اور پریس  کو بیانات جاری کیے ہیں۔

مصطفیٰ شن  توپ نے یورپ میں اسلامو فوبیا کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے  کہا ہے کہ اس معاملے پر ترکی اور اسپین کے درمیان تعاون کو ایک مثال کے طور پر لیا جانا چاہیے۔

مصطفیٰ شن  توپ  نے  تہذیبوں  کے اتحاد   جس کے ترکی اور اسپین شریک چئیرمین ہیں  کو     اسلاموفوبیا ، پنای گزی۸نوں کے مسائل اور تنازعات کے اس دور میں بہت زیادہ تعاون کرنے  کی ضرورت ہے۔

شَن توپ  نے اس بات پر زور دیا کہ یورپی یونین نے شامی مہاجرین کے حوالے سے مارچ 2016 میں ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی مکمل تعمیل نہیں کی۔

"یورپی یونین نے ترکی میں جو کچھ پورا کیا ہے وہ اپنے وعدوں کا دسواں حصہ بھی نہیں  ہے۔ اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو اس معاملے پر عوامی بیان دیتے ہوئے تھوڑا سا شرمندگی محسوس کرتا۔

مشرقی بحیرہ روم میں مسائل کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں  شَن توپ نے کہا کہ "مشرقی بحیرہ روم کو مشرقی بحیرہ روم  تک ہی محدود رہنا چاہیے ۔ یونان مشرقی بحیرہ روم میں نہیں ہے ، فرانس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن کسی وجہ سے جب مشرقی بحیرہ روم کا ذکر کیا جاتا ہے تو ہر ایک  اس میں دلچسپی لینا شروع کردیتا ہے۔ اگر مغربی بحیرہ روم میں اسی طرح کی صورت حال ہوتی  اور یہ ممالک اس میں دلچسپی لیتے تو فرانس کو لازمی طور پر بے چینی محسوس ہوتی۔ ہر ایک کو بین الاقوامی قانون سے پیدا ہونے والے اپنے حقوق کی پاسداری کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ  وہ افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کا بھی قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کو ہر ایک کے لیے رہنے کے قابل مقام پر لانا ، متفقہ طور پر کام کرنا اور انسانیت سوز ڈرامے کو ختم کرنے   اور اسے  سب سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔

 انہوں نے  1915 کے واقعات کے حوالے سےکہا کہ  کچھ یورپی پارلیمنٹ میں کیے گئے فیصلے غیر منصفانہ ، غیر قانونی اور تاریخی معلومات سے دور ہیں۔

"ہمیں بطور ترکی یہ درست نہیں لگتا کہ تاریخ میں جو واقعات رونما ہوئے وہ پارلیمنٹ کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ پارلیمنٹ کے بعض ارکان جنہوں نے اس (نام نہاد نسل کشی) کو قبول کیا وہ تاریخ کو بھی نہیں جانتے۔

انہوں نے کہا کہ  15 جولائی (2016) کو فتح اللہ دہشت گرد تنظیم (FETÖ) کی ناکام بغاوت کی کوشش کے بعد ، اسپین سے بھی ترک شہریوں کی درخواست کی گئی تھی ۔مجھے امید ہے کہ فیصلوں پر نظرثانی کی جائے گی اور ان افراد کو ترکی واپس کر دیا جائے گا۔



متعللقہ خبریں