صدر ایردوان کا استنبول یادگارِ شہدا پر تاریخی خطاب اُردو میں

ناکام بغاوت کے ا یک سال بعد عوام کا جوش و خروش، جمہوریت کے تحفظ کی یقین دہانی

771412
صدر ایردوان  کا استنبول یادگارِ شہدا پر تاریخی خطاب اُردو میں

ہمارے شہدا کی امانت  ہمارے قیمتی بھائی اور بہنیں

محترم غازی  بھائیو

شہر کے چارو اطراف  سے 15 جولائی  شہدا کے پل پر اکھٹے ہو کر  ، ہمارے اس پروگرام میں شرکت کرنے والےاستنبول کے باسیو،

15 جولائی  کی ناکام بغاوت   کے پہلے سال کے موقع پر ترکی   کے  تمام اطراف سے   تمام  میدانوں  میں یکجا ہونے والے میرے بہن  اور بھائیو اور

میری عزیز قوم اور عوام

میں آپ سب کو دل کی گہرائیوں، محبت  اور احترام سے سلام پیش کرتا ہوں ۔

پورے ایک سال قبل    ان اوقات میں  ترکی کے  کئی ایک مقامات کے ساتھ ساتھ یہاں پر   اس دور میں پکارے جانے والے  باسفورس پل   پر ناکام بغاوت کی کاروائی کا آغاز ہوا۔

ٹینکوں ، ذرہ بکتر گاڑیوں  کے ذریعے یہاں پر آنے والے  باغیوں  کی اس کاروائی کی ابتدا میں تو کسی  کچھ پتہ نہ چل سکا لیکن بعد   پل کے راستے بند  ہونے  پر ان باغیوں کے اہداف  اوروجوہات  کے بارے میں   سب کو  پتہ چل گیا۔

پل کے راستے  بند کرنے والے باغی   تام استنبول  ، پورے ترکی اور  پوری دنیا  کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ " اب کنٹرول ہمارے  ہاتھوں میں ہے" ۔

تقریبا انہی اوقات میں استنبول اور انقرہ   کے مختلف مقامات سے   بھی اس قسم کی یعنی قبضےاقتدار پر  قبضہ کرنے  کی خبریں  موصول ہو رہی تھیں ۔

ہماری قوم نے  استعمال  کیے جانے والے طریقوں  اور اسلوب  کا  جائزہ لینے کے بعداس بات کو سمجھ لیا تھا  کہ اس ناکام بغاوت کے پیچھے دہشت گرد تنظیم  فیتو کا ہاتھ ہے۔

ہماری قوم جس پر غدارووں  کے ٹولے کے ذریعے  حملہ کیا گیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی  نے فوری طور پر  اس کے خلاف  اپنی کاروائی کا آغاز کردیا۔

جناب وزیراعظم اور میں نے  خود ٹیلی ویژن چینلز پر  عوام سے اپیل کرتے ہوئے  عوام کو  لاکھوں کی تعداد کو گلیوں اور سڑکوں پر  فوجی بیرکوں کے سامنے یکجا کرنے میں کامیابی حاصل کی اور بہت بڑی تعداد میں لوگ  یہاں جمع ہوگئے۔

سب سے زیادہ مزاحمت اور خونریز حملے استنبول اور انقرہ میں کیے گئے۔

دیگر صوبوں میں  باغیوں  کو  موقع دیے جانے سے قبل  ہمارے عوام نے ان باغی فوجیوں پر اپنی حاکمت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

استنبول میں سب سے زیادہ خونریزی 15 جولائی شہد پل پر ہی ہوئی۔

سراچ حانے میں 20 کے لگ بھگ  افراد شہید ہوئے۔

چنگل قوئے ، اتاترک ائیر پورٹ ، ایسن لر میں توپچو بیرکس کے سامنے  ، ترک  ٹیلی  کوم کی عمارت  اور دیگر علاقوں میں  کئی ایک افراد شہید ہوئے ۔

انقرہ  میں مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر، قومی اسمبلی  والے علاقے قزلائی  میں 40 کے لگ بھگ افراد شہید ہوئے ۔

صدارتی محل  کے سامنے  29  افراد شہید ہوئے۔

گیول باشی اسپیشل فورسز کے ہیڈ کوارٹر  پر طیاروں سے حملہ کرنے والے باغیوں  نے ہمارے 53 بھائیوں  کو شہید کردیا۔

اس کے بعد  قزان کا علاقہ جسے اس کاروائی کے بعد " بہادر"  کا لقب بھی عطا کردیا گیا ہے  میں 9  افراد  شہید ہوئے۔

انقرہ محکمہ پولیس  کے دفتر پر کیے جانے والے حملے  میں شہید ہونے والے افراد کی تعداد 10 تھی۔

باگیوں کی جانب سے قبضہ کیے جانے والے  ٹینک   بڑی تعداد میں  بموں، بھاری اسلحے گولیوں  سے لدے ہوئے ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس ہیلی کاپٹر اور طیارے اور جنگی سازوسامان اور مہلک ہتھیار بھی موجود تھے۔

ان باغیوں نے   ہمارے  باشندوں پر اس   ہتھیاروں کو استعمال کرنے میں ذرہ بھر بھی گریز نہ کیا۔

لیکن ان کے خلاف  سینہ سپر ہو جانے والے عوام کے پاس کیا تھا؟

ان کے ہاتھوں میں نہ کوئی    اسلحہ ، بم ٹینک اور توپیں موجود تھیں۔

لیکن ان کے پاس بڑا موثر ہتھیار موجود تھا ۔

وہ  اسلحہ دراصل ان کے دلوں میں  جگہ بنائے ہو ایمان کا جذبہ تھا۔

شاعر اس بارے میں کیا خوب کہتا ہے۔

"ایمان ہے وہ جوہر،اللہ کتنا عظیم الشان ہے

بغیر ایمان کے زنگ شدہ دل ، سینے میں ایک  بوجھ  ہے"

جی ہاں ۔۔۔۔ ہماری قوم نے اس رات  صرف اپنی قوتِ ایمان سے   دنیا کے جدید ترین اسلحے کو مات دے دی۔

نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے  ٹینکوں پر چڑھ جانے والی قوم  کو بھا کون اسیر بناسکتا ہے ؟

سامنے، عقب میں دائیں طرف بائیں طرف  گرنے والے بیسیوں افراد پھر سے اٹھتے ہوئے واپس باگیوں سے نبر آزما ہوئے کسی نے بھی فرار ہونے کا سوچا تک نہ  بلکہ اپنی پہلی ہی فرصت میں  باغیوں کے سامنے سینہ سپر ہوجانے والی قوم کو بھلا کون شکست  سے دوچار کرسکتا ہے؟

اپنے  آگے صرف   3-4 میٹر گرنے والی گولی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے والے   لیکن ان کو واپس  آجاو ورنہ مارے جاو گے" کے الفاظ یاد کروانے والوں کو یہ کہ کر چپ کروانے والی قوم  " کہ اگر آج نہیں مرتے تو پھر کبھی مریں گے؟کے پااون پر بھلا کون زنجیر ڈال سکتا ہے؟

کاش کے اس پل کی زبان ہوتی ، اس رات یہاں   پر دکھائے جانے والے بہادری   کے جوہر آپ کو سنا سکتا۔

کاش کہ اس رات شہیدوں کے خون سے رنگین ہونے والی مٹی ، پتھر اور بجری کی زبان ہوتی ، بہادری کیا ہوتی ہے  پوری دنیا کو آگاہ کرتی۔ ۔۔۔

کیونکہ ہماری زبان اس کو بتانے میں پوریطرح ہمارا ساتھ دینے سے قاصر ہے ۔ اس لیے  میں اپنے الفاظ  چناق قلعے  شہدا  کے لیے تحریر کردہ  مہمت عاکف کے اشعار سے سہارا لیتے ہوئے  کتا ہوں۔

"شہدا کے  وجود کو دیکحو تو ذرہ ، پہاڑوں اور پتھروں کی مانند۔۔۔

اگر رکعوع نہ ہوتاتو دنیا ان کے سامنے جھکنا سیکھتی،

صاف پیشانی پر گولی لگی ہے، لیٹے ہیں زمین پر،

ایک ہلال کی خاطر ، یا رب کیسے کیسے   سورج  ڈوب رہے ہیں  ۔

15 جولائی  کی رات اس ہلال کی خاطر  غروب ہونے والے  ہمارے تمام سورج ، تمام شہدا کے لیے اللہ و تعالی  سے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔

اس رات  زخمی ہو کر بھی اپنے زخمو کی پراہ نہ کرنے والوں تمام انسانوں کو شکر گزار ہوں ۔

 آزادی، اذان، پرچم، وطن  مملکت اور مستقبل  کا خیال رکنے  والی تمام قوم کے ایک ایک شخص کا شکر گزار ہوں میں،

میرے  بہن اور بھائیو

ہم نے 15 جولائی  کی رات  باغیوں  کے حملوں کے نتیجے 250 افراد  شہید ہوگئے۔

لیکن انہوں نے 80 ملین آبادی والے مملکت ترکی کے مستقبل کو بچالیا ہے۔

اس رات  2 ہزار 194 ہمارے بھائی  زخمی ہوتے ہوئے  غازی بنے  اور انہوں نے ہماری قوم کو نئی امید عطا کی۔

ہم  نے اس  اسلسلے میں بڑا بھاری قرضہ بھی چکایا ہے۔

ہمارے ماں باپ ، بہن بھائیوں ، اولاد کی آنکھوں سے  بہنے والے آنسوں کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی ہے۔

لیکن اس فدا کاری اور قربانی  کے سامنے   ہم نے جو آزادی  اور مستقبل حاصل کیا ہے اس کی کوئی  قیمت نہیں ہوسکتی۔

کسی مقصد کے بغیر جمع ہو جانے والے لوگوں  اور قوم کے درمیان یہی فرق  ہے۔

لوگ صرف اپنے وقتی مفاد کی خاطر جمع ہوتے ہیں۔

جبکہ ملت اور قوم  اپنے مشترکہ ماضی ، مشترکہ اقدار، مشترکہ  سوچ کی مالک ہوتی ہیں اور وقت پڑنے پر اس مقاصد  کے حصول کے لیے  اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتی ہیں۔

ترک قوم 15 جولائی  میں ہزاروں سالہ اپنی تاریخ  کی طرح  اپنے مقدس مقامات  اور خیالات کے تحفظ کے لیے  کبھی بھی اپنی جانوں کی پراہ نہیں کریں گے اس کا ایک بار پھر اظہار کردیا ہے۔

انہوں  نے تاریخ  میں ہمیشہ ہی کٹھن سے کٹھن امتحان  دیا ہے اور کامیابی حاصل کی ہے۔ دشمنوں  کے حملے  نے ہمیشہ ہی ہمیں اکھٹا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

دہشت گرد تنظیموں کو اپنے مقاصد کے لیے  استمعال کرنے والوں کی حالت سے بھی ہم پوری طرح آگا ہیں۔

فیتو صرف فیتو ہی  نہیں ہے ،  پی کے کے، صرف پی کے کے،ہی نہیں ہے ، داعش صرف داعش نہیں ہے  اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں  صرف اپنے چہرے تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں  ان کے پیچھے اصلی چہرے  کون ہیں۔

لیکن اس وقت ایک حقیقت  ہمارے سامنے یہ بھی ہے کہ  ہم اس کھیل کے کھلاڑیوں  کو مات دیے بغیر بادشاہ  ا ور اصلی چہرے کو مات نہیں سے سکتے ہیں۔

اسلیے ہم  سب سے پہلے ان غداروں کے سر قلم کریں گے۔

اس کے بعد اصلی دشمنوں  کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے اپنی کاروائی کریں گے۔

اس کے لیے پہلے اپنی اقتصادیات کو مضبوط بنایں گے۔

اس کے لیے اپنی فوج کو مضبوط بنایں گے۔

اس کے لیے اپنی سفارتکاری کو مضبوط بنایں گے۔

اس کے لیے اپنے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنایں گے۔

سب سے  اہم ہمیں اپنا اتحاد اور یکجتی مضبوط بنانا ہوگا۔

ترکی نے  گزشتہ  15 سالوں  میں جو کچھ بھی کیا ہے اس پر نگا ڈالی جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان سب کے پیچھے یہی عناصر یہی کوششیں   کار فرما ہیں۔

ہمارے سامنے برسر پیکار تنظیمیں  ہمارے  خیالات یا ہماری سوچ کے مطابق نہ ہوں ۔

لیکن ترکی  جیسا نظر آتا ہے ویسا بھی نہیں ہے۔

ہمارے پیچھے ہمارا ماضی پوشیدہ ہے ہماری سینکڑوں سالہ مملکت کی روایات موجود ہیں ۔

صدرارتی محل کے لوگو  میں ایک ایک ستارہ اس رویاتا کی عکاسی کرتا ہے۔اس کی علامت ہے۔

ہمارے پیچھے 1400 سالہ  تہذیب موجود ہے۔

ہماری پیدائش کی وقت ہمارے کانوں میں دی جانے والی ازانوں کی آواز ، وفات کے وقت  پڑھا جانے والا درودو شریف ، ہماری زندگی کے  تمام اوقات  ہماری اپنی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔

ہمارے جغرافیہ کا ہزار سالہ ماضی  ہماری بھر پور جدو جہد کی  عکاسی بھی کرتا ہے۔

15 جولائی ایک لحاظ سے آتش فشاں  کی مانند ایک ہی رات میں  لاوہ اگلنے والا ، یا رات کو روشنی میں تبدیل کرنے والا اچانک رونما ہونے والہ حملہ نہیں ہے۔

اس کے پیچھے نہایت ہی  عظیم الشان ماضی موجود ہے  ایک پلان موجود ہے۔

شاعر اس بارے میں کہتا ہے۔

جی نہیں سکتا کوئی جب تک موت کا خطر مول نہ لے کوئی

فتح اس کے نصیب میں ہوتی ہے جوموت کی بھی پراہ نہیں کرتا

پرچم کے لیے اپنے خون کا نذرانہ  دینے کے لیے

آنس بہاتے بہاتے  آگے بڑھتا ہے  جوان

فتح تم بھی حاصل کرنے کے درپے ہو

اپنے آواز تو آسمان کو تک پہنچاو پہلے

تم جس کے سمجھتے ہو  فتح کے پیامبر

وہ فتح کے کیے  بڑھتا ہے جوش و خروش سے آگے

اس راستے میں ہر کوئی ایک ہے اے نوجوان

کوئی پرواہ نہیں کرتا اپنی جان کی مرتا ہے شان و شوکت سے

اپنی مملکت کے لیے لڑتا ہے نڈر ہو کر

ہمیشہ ہی شان و شوکت سے کبھی ادھر کبھی ادھر"

 جی ہاں  ہم لوگ زندہ ، سلامت، شان و شوکت سے ترک ملت ہونے کے ناتے اپنے خطے میں  اور دنیا میں اپنے بہترین مستقبل کے متمنی ہیں۔

ہمیں نہ ہی دہشت گرد تنظیمیں،  بزدلانہ جملے  اور کوئی کھیل وغیر  ہمیں  جھکانے پت مجبور کرستی ہیں۔

اللہ تعالیٰ  نے چاہا تو کبھی بھی وہ دن طلوع نہیں ہوگا۔

ہم خود تو جان دے سکتے ہیں لیکن اپنے پیچھے ہزاروں افراد  کو چھوڑتے ہوئے ۔

ہم موت کی پراہ کیے بغیر اپنے سفر کو جاری رکھیں گے۔

ہمارے دلوں  اسے جذبہ ایمان ، اپنے وجود  کی قوت اور طاقر اور بہادری سے اپنے کون پیسنے کی پراہ کیے بغیر اپنے سفر کو جاری رکھیں گے۔

ہمارے قومی ترانے میں شاعر نہیں کیا خوب کہا ہے۔

حق نے جو تم سے وعدہ کیا ہے وہ دن ضرور طلوع ہوگا ایک دن

کون جانتا ہے،   شاید کل، ، شاید کل سے بھی پہلے "

اس کے ہمراہ  بعض عناصر  اس بغاوت کی کوشش کو سوچی سمجھی سازش قرار دیتے ہوئے قوم  کی مزاحمت  کو غیر ضروری قرار دے رہے ہیں۔\

قابل توجہ  بات تو یہ ہے کہ  اس بات کا  رونا  دو گروپ رو رہے ہیں جن میں ایک گولن تنظیم کے کارندے ہیں اور ان کےغیر ملکی ایجنٹ اور دوسرے  ہمارے ملک کی حزب اختلاف سیاسی جماعت

یہ مانا جا سکتا ہے کہ  حزب اختلاف کے رہنما استنبول کے ہوائی اڈے سے اتر کر  باغیوں کی زیر نگرانی   اپنے ایک ساتھی کی رہائش گاہ پر جا کر  چائے پانی  اور دیگر لوازمات کے ساتھ  ٹیلی ویژن کے سامنے یہ سارا منظر دیکھ رہے ہوں۔

 مگر اس کے جواب میں  یہ  ضروری کہنا ہوگا کہ کہ   اس رات سڑکوں ،میدانوں  اور ہوائی اڈوں پر  باغی قوتوں  کے خلاف ہماری بہادر قوم نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر  ملکو قوم کے دفاع میں سر دھڑ کی بازی لگا دی  جس کا لفظوں میں بیان کرنا  مشکل ہے ۔

قومی اسمبلی کی تحقیقاتی کمیٹی  کی رپورٹ کی آڑ میں حزب اختلاف کی بعض شخصیات  باغیوں  کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں

۔البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ 15 جولائی کی رات   اسمبلی میں  باغیوں کے خلاف سینہ سپر ہوتےہوئے  قوم و ملک کے دفاع میں پیش پیش  اسی جماعت کے بعض رہنما ہماری نظر میں قابل تعظیم ہیں۔

بغاوت کی یہ کوشش ایک سوچی سمجھی سازش نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ  حزب اختلاف  کے موصوف رہنما کو جس طرح    سیاسی جماعت کی اہم کرسی پر فائز کیا گیا   وہ ایک چال ضرور لگتی ہے ۔

موصوف نے اس رات   جو بھی کیا وہ تمام دلائل،گواہوں اور تصاویر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جن کی تمام حرکات  اس ملک اور قوم کی  بے حرمتی کرنے کے مترادف اور باغیوں کے نقش قدم پر چلتی نظر آتی ہے ۔

 یہ سمجھنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ  گولن کے کارندوں کی طرح یہ موصوف    کسی دیگر عناصر کے  طابع حکم نظر آتے ہیں اب  دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔

 ہم  اپنے وطن عزیز اور اس کی آزادی  اور اپنی بہادر و جفاکش قوم  کے تابناک مستقبل کےلیے  جدوجہد جاری رکھیں گے۔

عزیز ہم وطنوں

15 جولائی کی تاریخ   یاد رکھنا ہمارے شہدا٫ اور غازیوں کی  قربانیوں   کے لیے نہیں بلکہ  ترک تاریخ کو  جاویداں رکھنے کےلیے بھی اہم ہے ۔

اگر ہم نے اس حادثے سے سبق حاصل نہ کیا تو یہ واقعہ پھر سے رونما ہو سکتا ہے حتی، دشمن عناصر اپنے ناپاک عزائم کو کیا عملی جامہ پہنائیں گے یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہوگا

مسلمان کا عقل و فہم کو استعمال   کرنا ضروری ہے اور اس کا  کامل یقین ہے کہ  غلطی دوبارہ نہ دہرائی جائے۔

15 جولائی کے پس پردہ کار فرما عناصر کا مقصد کیا تھا  یہ سب عیاں ہے اور ہمیں اس کا علم بھی ہو گیا ہے۔

ہر  سال 15 جولائی کو یاد کرنا ہمیں  ہمارے شہدائے قوم کی اد منانے اور ان کے اہل خانہ  کے غم میں شریک ہونے کے علاوہ غازیوں  سے اظہار تشکر  کا ایک وسیلہ بنے گا اور ہمیں اس بات کا احساس دلائے گا کہ  وطن عزیز کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان سے کیسے نبرد آزما ہونا چاہیئے۔

بغاوت کی ناکام کوشش کچلنے کے بعد ہماری حکومت نے  دشمنان ملت و ملک  کے خلاف کاروائیاں تیز کر دیں اور گولن تنظیم  کے سرکاری اداروں میں چھپے کارندوں کو ایک ایک کر کے سامنے  لایا گیا ۔

 اس وقت  ترک مسلح افواج، محکمہ  پولیس، وزارت تعلیم،وزارت صحت، مقننہ اداروں اور جامعات سمیت دیگر شعبوں سے ان کارندوں کو نکال باہر پھینکا گیا جن کی تعداد  1 لاکھ 11 ہزار کے لگ بھگ ہے ۔

نیز سرکاری ملازمت سے فارغ ہونے والے تقریباً38 ہزار افراد کی تفتیش تاحال جاری ہے۔

15 جولائی سے اب تک  1 لاکھ 34 ہزار کے قریب افراد  زیر حراست تفتیش کے طابع رکھے گئے اور 50 ہزار 400 افراد گرفتار ہوئے۔

علاوہ ازیں 8500 مفرور افراد  اس وقت مطولبہ افراد کی فہرست میں ہیں جن کے سمن جاری کر دیئے گئے ہیں۔

 گولن تنظیم سے وابستہ انجمنوں،فلاحی اداروں ،اوقاف،درس گاہوں،یونینوں،جامعات،ذرائع ابلاغ جیسے 5 ہزار شعبے بند کرتےہوئے ان کے مالی اثاثوں کو منجمد کر دیا گیا۔

 تنظیم  کی جبراً حاصل کردہ  دیگر رقوم اور واجبات کو بھی ہم نے قوم کے  سپرد کر دیا  اس پر کجا تنظیم سے منسلک  نجی کمپنیوں  کو بھی سرکاری تحویل میں  لیتےہوئے ان کی چھان بین شروع کر دی گئی ۔

گولن تنظیم ہی نہیں بلکہ پی کےکے جیسی  علیحدگی پسند  تنظیم کے خلاف بھی اسی قسم کی تدابیر اختیار کی گئیں۔

عدالتوں نے بھی اب گولن تنظیم کے خلاف دائر مقدمات کا فیصلہ سنا نا شروع کر دیا ہے۔

میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ  وطن عزیز سے غداری کرنے والے سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔کیونکہ میرا  یقین ہے کہ یہ ترک قوم  خدمتگاروں کو  اگرسر آنکھوں پر بٹھا  سکتی ہے  تو غداران وطن کو نیست و نابود بھی کر سکتی ہے۔

ہمارے شہدا٫ کی یاد ہمارے دلوں کو سدا گرما تی رہے گیاور غداران ملت کے خلاف نفرت و عداوت کا جذبہ دائما قائم رکھےگی ۔

توجہ طلب امر تو یہ ہے کہ  15 جولائی کے واقعے میں ملوث کسی بھی سفات چہرے نے اپنی پشیمانی و ندامت کا اظہار تک نہیں کیا جو کہ ان کی فطرت کا حصہ رہا ہے۔

اس کا مطلب  ہے کہ  ان شر پسندوں نے  غفلت  میں نہیں بلکہ پورے ہوش و حواس میں  ہماری عزیز قوم کی پشت پر خنجر گھونپنے کی کوشش کی  تھی ۔

ترک قوم امن کی علمبردار ضرور ہے لیکن غداری  کے مرتکب عناصر کے لیےقہر   کا سامان  بن جاتی ہے ۔

ان مقید غداروں کو آہنی سلاخوں کے پیچھے سڑنے کےلیے چھوڑ دینا   ہمارا فرض ہے لیکن ملکی مستقبل کےلیے سوچنا وقت کا تقاضا  بھی ہے۔

ہم  بطور قوم  ان واقعات سے درس حاصل کرتےہوئے    ترقی و خوشحالی کا سفر جاری رکھیں گے۔

رب العزت ہمارا حامی و ناصرہو اور  ہمیں ہر طرح  کے غداروںاور دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھتےہوئے   آفات و مصائب سے  دور رکھے ۔

 

 میں اپنے ان  الفاظ کو  مرحوم عارف نہاد آسیا  کی اس دل سوز اور با معنی دعا سے ختم کروں گا۔

ہماری آوازیں مدھم ہیں مگر ان میناروں کو اذان محمدی سے دور نہ رکھ میرے اللہ

میناروں کی جگمگاتی روشنیوں اور اس کے سائے کہکشاں سے ہمیشہ منور رہیں  ۔یا اللہ

قوت ایمان سے افروز اس وطن میں اسلام کا نام دائم رکھ یا اللہ

ہمیں میدان جہاد میں طاقت عطا کر ،ہمیں اس سے محروم نہ کر یا اللہ

ملکی عزت و آبرو پر مر مٹنے والوں کی قوت ایمانی و شجاعت کم نہ کر یا اللہ

مظلوم کی فریاد پر لبیک کہنے والی اس قوم کو  بے ضمیر و سنگدل نہ کر یا اللہ

ہمارے آج اور کل کو  شفاعت رمضان سے بہرہ ور ضرور کر یا اللہ

ہمیں   تیرے لاچار و بے بس بندے ہیں ہمیں بے یار و وطن مت کر یا اللہ

قوت ایمان سے افروز اس وطن میں اسلام کا نام دائم رکھ یا اللہ

 جی ہاں۔  رب باری تعالی  کا میں شکر گزار ہوں کہ اس نے  مجھےاس  عظیم و دلاور قوم   کا ادنی  فرد بنایا ۔ اس ہم  250 شہدائے ملت کے پاک ناموں کا اعلان کرتےہوئے انہیں خراج  تحسین پیش کریں گے۔

اس کے بعد  ان شہدا٫ کے احترام میں تعمیر کردہ یادگار کا افتتاح ہوگا۔

 شہدائے ملت کے اہل خانہ اور غازیوں کے ہمراہ اس کا افتتاح کرنے کے بعد  ترکی کی قومی اسمبلی کے سامنے  منعقد ایک تقریب میں شرکت کےلیے انقرہ روانہ ہونگے

قصر صدارت میں واقع جامع مسجد ملت  میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد  صدارتی محل کے سامنےیاد گار شہداِئے ملت کی تقریب رونمائی ہوگی ۔

آج شب 00٫13 بجے مساجد سے درود و صلوات کا آغاز ہوگا اور پورے ملک میں  اتحاد و یک جہتی  کی حمایت میں پیدل مارچ کیے جائیں گے اس کے ساتھ پاسداران جمہوریت  اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے جو کہ کل رات بار بجے تک جاری رہیں گی ۔

میں ایک بار پھر 15 جولائی  2016  اور دہشت گردی  کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے  قوم کے عظیم جانبازوں  کےلیے اللہ سے مغفرت ،اور ان کے لواحقین کےلیے صبر جمیل کی جبکہ غازیوں کےلیے جلد صحت یابی کی دعا کرتا ہوں ۔

15 جولائی کا پہلا سال مکمل ہونے پر منعقدہ  تقریبات میں  شرکت کرتے ہوئے  شہدائے ملت اور غازیوں کے ملک و قوم کے دفاع ،جمہوریت کی پاسداری اور تابناک مستقبل کے مقاصد میں دی جانے والی قربانیوں  پر اظہار تشکر کرتے ہوئے آپ کی دعاوں  اور محبت و خلوص کا طالب ہوں۔

اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

 



متعللقہ خبریں