امریکہ کا دہشتگرد تنظیم YPG کو فراہم کردہ اسلحہ ترکی کے خلاف استعمال نہیں ہو گا

ترکی کو جو ضمانت دی گئی ہے وہ یہ کہ راقہ آپریشن میں استعمال کیا جانے والا اسلحہ آپریشن کے بعد ترکی کے اندر دہشتگرد گروپوں کے ہاتھ نہیں لگے گا اور تر کی کی  سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ بن علی یلدرم

745329
امریکہ کا دہشتگرد تنظیم YPG کو فراہم کردہ اسلحہ ترکی کے خلاف استعمال نہیں ہو گا

دہشتگرد تنظیم داعش سے نجات کے لئے ترکی کی طرف سے  کئی ماہ سے  زیر غور راقہ آپریشن شروع ہو گیا ہے۔

وزیر اعظم بن علی یلدرم نے افطار پروگرام کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لئے راقہ آپریشن کے بارے میں بیان جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ 2 اور 3 جون کی درمیانی شب کو شام میں راقہ کو داعش سے چھڑانے کے لئے آپریشن شروع ہو گیا ہے اور آپریشن سے قبل اس سے متعلق ضروری معلومات سے امریکہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔

انقرہ نے امریکہ کو، علیحدگی پسند دہشتگرد تنظیم PKK کی شامی شاخ YPG کے ساتھ تعاون کرنے پر بے اطمینانی سے ہر سطح پر، آگاہ کیا ہے۔

اس کے جواب میں واشنگٹن انتظامیہ نے کہا ہے کہ  یہ کوئی انتخاب نہیں بلکہ مجبوری ہے۔

وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ راقہ آپریشن پر بغور نگاہ رکھی گئی ہے اور اس بارے میں ترکی کو جو ضمانت دی گئی ہے وہ یہ کہ راقہ آپریشن میں استعمال کیا جانے والا اسلحہ آپریشن کے بعد ترکی کے اندر دہشتگرد گروپوں کے ہاتھ نہیں لگے گا  اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں تر کی کی  سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔

وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ ہماری ناقابل تغیر اسٹریٹجی ہے اور وہ یہ کہ ملکی سلامتی کے لئے خطرہ دہشت گرد گروپ خواہ ملک کے اندر ہوں یا باہر اور ان کا نام خواہ کچھ بھی ہو۔ PKK، PYD ، YPG، DHKP-C یا پھر داعش ہمارے لئے سب ایک جیسی ہیں اور ہمارا ہدف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر بھی ا ور ضرورت پڑنے پر ملک سے باہر بھی  ہم نے اپنے عوام کی اور ملک کی سلامتی کے لئے ضروری قدم اٹھانے میں کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ایسا ہم نے ماضی میں بھی کیا ہے اور ضرورت پڑی تو آئندہ بھی کریں گے۔

یورپی یونین اور خاص طور پر جرمنی کے ساتھ تعلقات  کو معمول پر لانے سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ خاص طور پر 16 اپریل کے ریفرینڈم کی انتخابی مہم کے دوران  جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ کشیدگی  کا شکار ہونے والے تعلقات کو دوبارہ سے معمول پر لانا ہماری بنیادی سوچ ہے لیکن یہ کام ایک فریق کے ارادے سے ممکن نہیں ہے۔ جرمنی کے بھی اس معاملے میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔



متعللقہ خبریں