16 اپریل،جمہوریہ ترکی کی سیاسی تاریخ کا اہم دن
ابراہیم قالن کے قلم سے
تاریخ 16 اپریل
ترکی اور دیار غیر میں بسے ترکوں نے عوامی ریفرنڈم میں بھرپور حصہ لیا ۔ بتایا گیا ہے کہ اس رائے دہی میں عوامی تناسب کا شمار 86 فیصد رہا جس کے نتیجے میں ریفرنڈم کے حق میں 51٫4 فیصد ووٹ ڈالے گئے جس سے ترکی اب ایک نئے سیاسی نظام اور جمہوری دور کی داغ بیل پڑے گی ۔
سب سے پہلے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ 16 اپریل کا ریفرنڈم ترک جمہوری تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوا جس کا فیصلہ عوام کے ہاتھوں ہوا ۔ سن 1960 کی فوجی بغاوت کے دوران ترکی میں ایک جمہوری اور منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ،صدارتی اقتدار کو سیاسی جماعت سے وابستگی ختم کرنا پڑی اور ناقص اور کمزور مخلوط حکومتوں کے ذریعے ایک ناقص پارلیمانی نظام کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ یہ ایک ایسا نظام تھا کہ جو کہ ملک میں پارلیمانی نظام کو یکایک ایک معمولی سی فوجی بغاوت سے ختم کرنے کا بھی اہل تھا ۔ مگر سن 2002 میں صدر رجب طیب ایردوان کی قیادت میں سیاسی روش نے کروٹ بدلی اور ایک معقول اور مستحکم طرز حکومت سے کثیر الجماعتی دور سیاست کا وقتی کاتمہ ضرور ہوا لیکن خدشہ بہر حال برقرار رہا جسے نتیجتاً عوامی طاقت کے ذریعے 16 اپریل سن 2017 کو مکمل طور پر ترک سیاسی تاریخ سے رفع کر دیا گیا ۔
ترک عوام اب سن 2019 میں براہ راست اپنی منشا٫ سے صدر اور پارلیمانی ارکان کا انتخاب کرے گی اور صدر کےلیے ضروری ہوگا کہ وہ عوامی اکثریت سے منتخب کیا جائے۔ اس نئے صدارتی نظام کے تحت پارلیمانی کو مزید با اختیار بنایا جائے گا اور وہ خلاف آئین اقدامات کی پاداش میں صدر کو عدالت تک لانےکی اہل ہو سکے گی ۔اس نئے نظام کے نتیجے میں ایک مستحکم اور قانون کے تقاضوں سے ہم آہنگ ترکی ابھرے گا جو کہ صدر اور پارلیمان کے درمیان مفاہمت کی راہیں ہموار کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا۔
عوامی ریفرنڈم کے نتیجے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ جنوب مشرقی ترکی میں بسی کرد عوام کی اکثریت نے اس ریفرنڈم کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ ا نہیں اب یقین ہو چلا ہے کہ ان کے مفادات و حقوق کا نام نہاد دفاع کرنے والی شر پسند سیاسی جمات ایچ ڈی پی اپنی ترک دشمن پالیسیوں سے ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور اب حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔کردوں کی اکثریت ترکی میں جمہوری اصلاحات ،سرمایہ کاری اور سرکاری نظام سمیت پی کےکے کے خلاف جنگ میں حکومت کے ساتھ ہے اور صدر رجب طیب ایردوان کی پالیسیوں پر مکمل اعتماد رکھتی ہے۔
نتیجتاً مغربی ذرائع ابلاغ اور یورپ کی بعض حکومتوں کو، ترکی میں، سنجیدہ سطح پر اپنے اعتبار سے محروم ہونا پڑا۔ بعض یورپی حکومتوں نے ریفرینڈم کمپین کے دوران جو کچھ کیا اس پر ترکی میں شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ مستقبل میں یورپ کے ساتھ ترکی کے تعلقات کے بارے میں بھی سوالیہ نشان پیدا کرنے کا سبب بنا۔ اگر کھلے الفاظ میں کہا جائے تو یہ کہنا درست ہو گا کہ یورپی حکام نے صرف 'نفی ' کی کمپین چلا کر ریفرینڈم میں مداخلت کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ترک وزراء سمیت آئینی تبدیلی کے حامیوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور انہیں بیرون ملک مقیم لاکھوں ترک ووٹروں کو آگاہی فراہم کرنے سے روکا۔
ایک اور سوال دوہرے معیار کے بارے میں ہے۔ اگر اٹلی میں سیاسی استحکام کے لئے انتخابی قانون میں تبدیلی کے ساتھ یورپی یونین کے تعاون کو یاد کیا جائے تو ترک عوام اس بات پر حیرت زدہ ہے کہ یورپ، ترکی میں اس سے مشابہہ اقدامات کی کیوں اس قدر شدت سے مخالفت کر رہا ہے۔ اصل میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ ترکی کو سمجھنے اور ریفرینڈم کے نتائج کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں۔آئینی تبدیلی کی تجویز کا محتاط مطالعہ کرنے اور سمجھنے کی بجائے متعدد اخباری نمائندوں اور تبصرہ نگاروں نے شارٹ کٹ راستوں سے بعض نتائج پر پہنچنے کی کوشش کی اور اس ریفرینڈم کو ،جمہوریہ ترکی کے اعتبار کو مجروح کرنے کا، ایک موقع خیال کیا۔ مغربی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور تبصروں کا مطالعہ کرنے والے متعدد ترک قارئین کو یہ احساس ہوا کہ جیسے وہ 'نفی' کی کمپین کے لئے شائع شدہ بروشروں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ نتیجتاً بین الاقوامی میڈیا کی حقائق کو سمجھنے میں ناکامی بین الاقوامی رائے عامہ کو ایک پیش بین اور جانبدارانہ تصویر پیش کرنے کا سبب بنی۔ ہمیں امید ہے کہ ان اخباری نمائندوں کو یہ احساس ہو جائے گا کہ جو کچھ انہوں نے کیا وہ ایک سیاسی فعالیت تھی جس نے ان کے صحافتی کیرئیر کو نقصان پہنچایا ہے ۔
او ایس سی ای اور یورپی کونسل کی پارلیمنٹیرین اسمبلی کے وفود بھی اسی مسئلے سے دوچار دکھائی دے رہے ہیں۔ سوموار کے روز شائع ہونے والی ابتدائی رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ ریفرینڈم میں "تکنیکی پہلووں کو اچھے طریقے سے چلایا گیا" لیکن کمپین اس کے ہم پلہ نہیں تھی۔ اس رپورٹ کو لکھنے والے وفد کے بعض اراکین کی طرف سے سوشل میڈیا سے، ترکی اور یورپی یونین کی طرف سے دہشت گرد تنظیم قبول کی گئی، PKK کے ساتھ تعاون کئے جانے کی بات منظر عام پر آئی ۔ اس چیز نے جانبداری کے بارے میں سنجیدہ سطح پر شبہات پیدا کئے۔
یہاں اس پہلو کی یاد دہانی اہمیت کی حامل ہے کہ صدارتی نظام کے ساتھ تعاون گذشتہ مہینوں میں 30 فیصد سے 50 فیصد تک بڑھ گیا ہے اور 25 ملین تک پہنچ گیا ہے۔ بلاشبہ آنے والے دنوں میں جب لوگ ترکی کے لئے نئے سسٹم کے فوائد کا مشاہدہ کریں گے اور اس سسٹم کو ترکی کے مستقبل کو زیادہ محفوظ بناتا ہوا دیکھیں گے تو آئینی تبدیلی کی حمایت میں اور بھی اضافہ ہو گا۔ ایک طرف سے صدارتی حکومتی نظام کے قیام کے لئے آئینی تبدیلیاں کی جائیں گی اور دوسری طرف ترکی ،اتوار کے روز ہونے والے تاریخی ریفرینڈم کی مدد سے، ملکی اور علاقائی مسائل کے بارے میں زیادہ موئثر اور تیز رفتار اقدامات کر سکے گا۔
متعللقہ خبریں
نتَن یا ہو کی نسل کشی ہٹلر کی نسل کشی کو بھی مات دے چکی ہے : صدر ایردوان
ایردوان نے ان خیالات کا اظہار یونان کے کاتھیمیرینی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا