سی این این انٹرنیشنل پر ترک وزیر خارجہ کا انٹرویو

ترکی اور امریکہ کو    مشترکہ   طور پر   داعش اور دیگر   دہشت  گرد  گروہوں    کے خلاف مشترکہ کاروائیاں کرنی ہوں گی ،  ہمار ے اس ضمن میں مشترکہ اہداف   اور  تجربات  پائے  جاتے ہیں : چاوش اولو

573425
سی این این انٹرنیشنل پر ترک وزیر خارجہ کا انٹرویو

وزیر ِ خارجہ  میولود چاوش اولو    کا کہنا ہے کہ   دہشت گرد  تنظیم  فیتو    کے سرغنہ  فتح اللہ گولن  کی ترکی  کو واپسی       کے معاملے میں ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کی    جنرل اسمبلی     کے  اجلاس میں شرکت کی غرض سے نیویارک میں موجود    میولود   چاوش اولو     نے سی این این انٹرنیشنل پر   کرسٹیان  امان  پور کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے  بتایا کہ ترکی اور  امریکہ  کے درمیان  بعض  "ذی فہم  نظریاتی  اختلافات"  پائے جاتے ہیں تو بھی    جیسا   کہ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی   کہا ہے کہ   دونوں ملک  اتحادی  اور   ماڈل حصہ دار ہیں،  تا ہم     ترکی میں   فوجی بغاوت کی کوشش  کا منبع    ہونے والے   فتح اللہ گولن   کی ترکی   کو  عدم  حوالگی     پر ترک عوام   رد عمل کا مظاہرہ کررہے  ہیں۔

گولن کی ترکی کو  واپسی   کی توقع   رکھنے پر زور دینے والے   چاوش اولو نے   اس بات کی یاد دہانی  کرائی   کہ   اومابا  کے علاوہ امریکی نائب صدر جو بائڈن اور وزیر خارجہ جان کیری    گولن کی ترکی کو حوالگی کے   حق  میں  ہیں، جس کا انہوں  نے     اظہار  بھی کیا ہے۔

انہوں نے ہم سے اس  ضمن میں دلائل اور اثبات  مانگے تھے جن کو    ہم   فراہم   کر چکے ہیں  اب   بغاوت کی کوشش  کے       حوالے  ایک  فائل تیار   کی  جا رہی ہے  جسے مکمل ہونے پر     امریکہ    کو پیش   کر دیا جائیگا۔

وزیر چاوش اولو نے  مزید کہا کہ "ہمارا  امریکہ کے ساتھ تعاون  پایا جاتا ہے تا ہم   ، ہمیں مذکورہ  معاملے میں  کسی نتیجے تک پہنچا ہو گا،   لیکن    بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ  ہمیں    تا حال  مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔   ترکی اور امریکہ کو    مشترکہ   طور پر   داعش اور دیگر   دہشت  گرد  گروہوں    کے خلاف مشترکہ کاروائیاں کرنی ہوں گی ،  ہمار ے اس ضمن میں مشترکہ اہداف   اور  تجربات  پائے  جاتے ہیں۔

شام میں  فائر بندی     کے   موضوع پر امریکہ اور روس کے درمیان طے پانے والے    معاہدے     کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دینے والے  چاوش اولو نے اس چیز کے فائر بندی  کے  معاملے میں   پہلا معاہدہ نہ ہونے پر   توجہ  مبذول  کراتے  ہوئے  کہا کہ "بڑے  افسوس کی بات ہے کہ    ہمیشہ   فائر بندی پر  عمل درآمد کا خاتمہ اسد انتظامیہ اور اس کے حمایتیوں نے کیا ہے۔ حتی انہوں نے اقام متحدہ کی انسانی امداد کی راہ  میں  رکاوٹیں  کھڑی کیں۔  اب کی  بار بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ اسد قوتیں نہ صرف حلب بلکہ ملک کے   بیشتر علاقوں پر بمباری کر رہی ہیں۔ ان کاہدف    الا نصرہ   یا پھر  داعش نہیں  بلکہ    اعتدال  پسند مخالفین ہیں۔"

انہوں نے ایک دوسرے سوال کہ "آپ کی نئی فوجی حکمت ِ عملی کیا ہے؟"  کے جواب  میں  کہا کہ "منبچ     علاقے کو داعش سے پاک کرتے ہوئے  ایک محفوظ  علاقہ بنانا اور بعد ازاں  الا باب    ہمارا  نیا ہدف ہونا چاہیے۔"

شام میں  راقعہ  اور عراق میں  موصل  کو   داعش کے  صدر مقامات کے طور پر تصور کیے جاسکنے کا ذکر کرنے والے   جناب چاوش اولو نے کہا کہ   ان دونوں علاقوں  کو اس  درندہ صفت    تنظیم سے پاک کرنا  لازمی ہے۔

بعض یورپی  سربراہان اور   ملکوں کے   اس  اقدام  کی حمایت کرنے اور امریکہ کے اس موضوع پر سوچ و بیچار کرنے کا   ذکر کرنے والے    ترک وزیر نے  اس  چیز کی یاد  دہانی بھی کرائی کہ بعض ممالک  اپنے خصوصی دستوں کو    ان علاقوں کو روانہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں   اور یہ محض    ترکی سے اس چیز کی توقع رکھتے ہیں۔

مہاجرین کے بحران کے  بارے میں بھی اپنے جائزے پیش کرنے والے  وزیر خارجہ نے بتایا کہ   ترکی  مہاجرین    کی دوبارہ    قیام پذیری  خلاف نہیں ہے بلکہ  یہ با صلاحیت اور تعلیم یافتہ     کی طرح  کے گروہوں میں     ان کی تقسیم  کی مخالفت کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ  مہاجرین کو   قربانی کے جانور کی طرح نہیں چنا     جا سکتا،  یہ ایک انسانی   فعل نہیں ہے۔



متعللقہ خبریں