دہشت گردی کے خلاف ترکی کے عزائم،صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کے قلم سے

صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کے قلم سے ترکی کی حالیہ صورت حال پر ایک تجزیہ

451373
دہشت گردی کے خلاف ترکی کے عزائم،صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کے قلم سے

ترکی کرد باشندوں سمیت سب کے تحفظ کے لیے دہشت گرد تنظیم " پی کے کے" کے خلاف اپنی جدو جہد کو جاری رکھے گا۔ ترکی دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف قائم کوالیشن کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض کو سرانجام دیتا رہے گا۔

13 مارچ کو انقرہ میں ہونے والا دہشت گردی کا حملہ دہشت گردی کے حملوں میں سے ایک کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترکی ایک طرف داعش اور دوسری طرف پی کے کے ، کے خلاف جاری آپریشن کی وجہ سے بین الاقوامی دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے ۔ اس قسم کے حملوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے انتشار اور دہشت گردی کے باوجود ترکی کبھی بھی دہشت گردی کی پالیسی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ ترکی کی مزاحمت اور پختہ عظم اس خطرے کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ماضی قریب میں داعش اور پی کے کے کی جانب سے کیے جانے والے حملے گزشتہ پانچ سال سے شام میں جاری خانہ جنگی کا نتیجہ ہے۔ داعش ترکی اور شام کی سرحدوں پر کوالیشن قوتوں کے بڑھتی ہوئی پیش قدمی کی وجہ سے ترکی پر اپنے دباو ڈالنے کے لیے ترکی کے قصبوں اور دیہاتوں پر اپنے حملوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسوقت دہشت گرد تنظیم داعش نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ ترکی اس کا دشمن ہے اور اس کا نیا ہدف ہے ۔ حتیٰ کہ تنظیم کے انٹر نیٹ سائٹ پر صدر رجب طیب ایردوان کو اسلام دشمن قرار دیا گیا ہے ۔ دہشت گرد تنظیم پی کے کے نے بھی دیار باقر ،حقاری، شرنک اور ماردن جیسے جنوب مشرقی اناطولیہ کے شہروں میں دہشت گرد کاروائیوں میں ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد انقرہ اور دیگر بڑے شہروں میں بم حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ان حملوں کا مقصد عوام کو خوفزدہ کرتے ہوئے حکومت کیطرف سے دہشت گردوں کے خلاف جاری کاروائیوں کو ختم کروانے کے لیے اس پر دباؤ ڈلوانا ہے لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیونکہ ترکی نہ داعش اور نہ ہی پی کے کے کی دھمکیوں کے سامنے سر جھکائے گا ۔

اگرچہ مغربی ممالک داعش اور پی کے کے کی شام میں شاخ پی وائے ڈی کے مسلح گروپ وائے پی جی کے ایک دو سرے کیخلاف بر سر پیکار ہونے کے طور پر دکھا رہا ہے لیکن دراصل وہ ترکی کیخلاف مل کر حرکت کر رہے ہیں ۔ پی کے کے اور داعش ترکی کو راہ راست پر لانے کے لیے ایک جیسا طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں ۔یہ تنظیمیں انسانوں کو ہلاک کرتے ہوئے اپنے مطالبات کو تسلیم کروانے کے لیے سیاسی ماحول اور عوام کو تبدیل کرنے کا خیال رکھتی ہیں ۔

ہم جب اپنے جان بحق افراد کا ماتم کررہے ہیں اور زخمیوں کی عیادت اور ان کی دیکھ بھال کررہے ہیں تو اس دوران شام میں جاری خانہ جنگی کو دہشت گرد تنظیم پی کے کے اپنے مفاد کے لیے استعمال کررہی ہے۔ انقرہ ایک عرصے سے صرف اپنے لیے نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کو بھی شام میں جاری خانہ جنگی کے پھیلنے کے بارے میں متنبہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔ بین الاقوامی کی جانب سے شام کے عوام کے تحفظ اور ان باشندوں کو اپنے ملک آنے سے روکنے میں ناکام رہنے پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو داعش کی دہشت گردی کے ماضی قریب میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ممالک کے بعد ان حملوں کا نشانہ بلجیم ، فرانس اور تیونس بھی بنے۔ سب سے اہم بات شام کی وجہ سے ان تمام ممالک میں پناہ گزینوں کا مسئلہ پیدا ہوچکا ہے۔ پناہ گزینوں کو کیسے روکنے کے بارے میں ترکی اور یونان کو برسلز اور یورپی دارالحکموتوں میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور یہ موضوع ابھی تک یورپ کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ وزیراعظم احمد داؤد اولو کے یورپی ممالک کے سربراہان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات شامی باشندوں کے یورپ کے تمام علاقوں کو جاری آمدو رفت کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لحاظ سے ایک اہم موقع کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کو ترکی اور یونان میں نہیں بلکہ شام میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔

انقرہ کے پی کے کے بارے میں خدشات ایک بار پھر سچ ثابت ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کئی ایک مغربی تجزیہ نگار پی کے کے اپنے مفاد کے لیے شام میں کھیلی جانے والی گیم پر ابھی تک اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور وہ اسے داعش کے خلاف جنگ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں البتہ حققیت تو یہ ہے پی کےکے نے ترکی میں سیاسی حل کی کوششوں کو سبو تاژ کرتے ہوئے شام کی بگڑتی صورت حال کو موقع غنیمت جانا۔ پی کےکے کے کرتا دھرتاوں نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا کہ شام کی جنگ ختم ہونے تک وہ بھی اسلحہ تھامے رکھے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کی خانہ جنگی کو یہ تنظیم جمہوریہ ترکی کے خلاف ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ پی کےکے اور اس کی شام میں مصروف ذیلی شاخ داعش کے خلاف جنگ کے بہانے اپنی مذموم کاروائیاں جاری رکھنا چاہتی ہے اور یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ پی کےکے کے دہشت گرد شام میں مصروف PYD کے زیر کنٹرول علاقوں سے اسلحہ اور دیگر سازو سامان حاصل کر رہے ہیں۔

تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ بعض عناصر شام کی خانہ جنگی اور داعش کے خلاف جنگ کی آڑ میں پی کےکے کے مسئلے کو اجاگر کرنے پر حکومت ترکی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں حتی یہاں تک کہ رہے ہیں کہ ترکی، داعش کے خلاف لڑائی میں دنیا کی توجہ پی کےکے کی طرف مبذول کروا رہا ہے۔

سترہ فروری اور تیرہ مارچ کے انقرہ حملوں سے پی کےکے کے عزائم کھل کر سامنے آچکے ہیں۔

پی کے کے کی موجودگی ہماری ملکی سلامتی کو خطرے سے دوچار رکھےہوئے ہے اگر ہم اس کا برملا اظہار کر رہے ہیں تو مطلب ہر گز اخذ نہیں کرنا چاہیئے کہ ہمیں داعش کے خلاف جنگ کی پروا نہیں ہے اس کے بر عکس جمہوریہ ترکی کو ان دونوں تنظیموں سے بیک وقت خطرہ لاحق ہے جو کہ اپنے مفادات کی خاطر ترکی کو قربانی کا بکرا سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ بعض شخصیات اس عام لیکن پر ُمعنی حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں جو کہ شرمناک پہلو ہے ۔

1980 کی دہائی میں اور 1990 کی دہائی میں جب دنیا بھر میں القائدہ جیسی دہشت گردی کے خطرات موجود تھے برطانوی حکومت کے جمہوریہ آئیرلینڈ کی فوج کی دہشت گردی پر توجہ دینے کی کسی نے مخالفت نہیں کی تھی۔ یہ صورتحال دنیا کے دہشت گردی کے دیگر خطرات پر توجہ مرکوز کرنے کے دوران اسپین کے علیحدگی پسند تحریک ETA کی دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کرنے پر بھی صادق آتی ہے۔ جب PKK اور دہشت گرد تنظیم داعش کی بات ہو تو ترکی کی حیثیت بھی ان مثالوں سے مختلف نہیں ہے۔ PKK کا مغربی اہداف کو نہیں صرف ترکی پر حملے کرنا اس کے، سکیورٹی کے لئے معمولی خطرہ ہونے یا غیر اہم دہشت گردی ہونا ثابت نہیں کرتا۔

ترکی ، کرد شہریوں سمیت اپنے تمام شہریوں کے تحفظ کے لئے PKK کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھے گا۔ ترکی داعش کے خلاف قائم کئے گئے کولیشن کے فعال رکن ہونا بھی جاری رکھے گا۔ لیکن داعش پر توجہ مرکوز کرنا اس بات کی چھٹی نہیں دیتا کہ PKKکی طرف سے آنکھیں بند کر لی جائیں ۔ انقرہ اپنے اتحادیوں کو دہشت گردی کی ہر شاخ کے خلاف مل کر کھڑے ہونے کی دعوت دینے کے بارے میں حق بجانب ہے۔



متعللقہ خبریں