بھلانا یا پھر یاد رکھنا: ہمیں تاریخ کا کس طرح جائزہ لینا چاہیے

فراموش کردینا انسان کی ایک بنیادی خاصیت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بھی بعض چیزوں کو بھول جاتے ہیں اور بھلانا افسوس اور ماتم کے لمحات میں اپنے آپ کو سنبھالا دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے

445040
بھلانا یا پھر یاد رکھنا:  ہمیں تاریخ کا کس طرح جائزہ لینا چاہیے

بھلانے اور یاد رکھنے میں بڑائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ زیادہ بہتر انسان بننے کے لیے ان میں سے کس کا انتخاب کرنا کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

عالمین کا ایک گروپ فراموش کرنے کو مہربانی جبکہ یاد رکھنے کو خطرناک اور مہنگے کسی رسک اور کوشش سے تعبیر کرتا ہے۔ افراد اور معاشرے محض ماضی کی چیزوں کو بھول جاتے ہیں اور جس حد تک وہ مستقبل کی جانب دیکھتے ہیں اسی حد تک آگے بڑھنے کے موقع کے حامل ہوتے ہیں۔ پیش آنے کے فوراً بعد کے لمحات میں اپنی زندگیوں کو جاری رکھنے پر مجبور ہونے والی لاکھوں ، کروڑوں یادوں کا وجود پائے جانے والی اس دنیا میں فراموش کرنا نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کسی بڑائی کی طرح بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی بڑائی و شائستگی ہے کہ یہ ماضی کی خوفناک یادوں سے دور جانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

واقعی میں کیا ایسا ہو سکتا ہے؟

فراموش کردینا انسان کی ایک بنیادی خاصیت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بھی بعض چیزوں کو بھول جاتے ہیں اور بھلانا افسوس اور ماتم کے لمحات میں اپنے آپ کو سنبھالا دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ آپ کے سر پر پڑنے والا ہر افسوس دہ واقع یا پھر المیے کے روز اول کی طرح زندگی بھر اسی درجے کے ساتھ جاری رہنے کا کیا آپ تصور کر سکتے ہیں؟ زندہ رہنا ، نئے دوست بنانا حتی ٰ ایک تازہ ای میل لکھنا بھی نا ممکن بن جاتا تھا۔ جیسا کہ Nietzsche نے کہا ہے کہ " بھلانے کی عدم موجودگی میں زندگی گزارنا نا ممکن ہے"، فراموش کرنا ایک بڑائی و خصوصیت ہو سکتی ہے۔

بلا شبہہ تاریخ کا حق تلفیوں اور مظالم کو جائز قرار دینے کے زیر مقصد جوڑ توڑ کیا گیا ہے۔ جرمنی میں نازیوں اور اٹلی میں فاشیوں نے نظریاتی عجوبوں کو تخلیق دینے کی خاطر قومی تاریخ کو آلہ کار بنایا ہے۔ سن 1947 کی علیحدگی سے2002 تک صوبہ گجرات میں جاری رہنے والی نسل کشی تک ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ہندووں کی نسل پرست کارائیاں اور تشدد دو رخی پالیسیو ں کی عکاس ہیں اور تاریخ کو مسخ کرنے کا مفہوم رکھتی ہیں۔ لہذا ماضی و تاریخ کو انتہائی خطرناک طریقے سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ترکی کے یونانی عیسائی طبقے کے خلاف سن 1955 کے ایام 6 تا 7 ستمبر کو ہونے و الی پُر تشدد کاروائیاں ماضی کے غلط استعمال اور مفہوم کی بنیاد ہیں۔ اصل ماضی کی راہ سے ہٹنے والے واقعات کی تعداد ہمیشہ ہی کافی زیادہ رہی ہے۔

ترکی کے ممتاز قومی شاعر مہمت عاکف ایرسوئے نے اپنے ایک شعر میں تاریخ کے کس طرح دہرائے جانے اور انسانوں کے اس سے لازمی سبق نہ سیکھنے کی حقیقت کو دلی افسوس پر مبنی جذبات کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

مہمت عاکف 1910 اور 1920 کے دور میں دولت عثمانیہ کے سر پر پڑنے والی جنگوں کے خوفناک اثرات کا بذاتِ خود مشاہدہ کر نے والے ایک اہم مفکر تھے۔ اپنی ذہانت و علم و ادب کی طاقت کی بدولت انہوں نے ہمیں ، ہم سے پہلے کچھ بھی نہیں ہوا تھا کے نظریے کے ساتھ تاریخ میں بارہا دہرائی جانے والی خطاوں کا آئندہ سد باب کرنے کی خاطر خبردار کیا تھا۔ کئی ایک اعتبار سے یہ صورتحال جیورج سانتایانا کے ایک مشہور قول کی یاد دلاتی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ" اپنے ماضی کو فراموش کرنے والوں کو دوبارہ اسی چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔" تا ہم سانتایانا محض کچھ حد تک حق بجانب تھا۔ کیونکہ تاریخ سے بخوبی واقف انسان بھی خوفناک قسم کی غلطیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب ماضی بہتری کا منبع بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ مواقع سے فائدہ اٹھانا بھی ایک اہم چیز ہے۔ اجتماعی ماضی اور مشترکہ اقدار خود غرضی سے نجات پانے میں معاون ہو سکتی ہیں۔

دوسرے الفاظ میں لازمی چیز کو یاد دکھنا اور اپنی بنیادوں کو بالائے طاق رکھنا ہمارے لیے مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔

اسلامی دانش مندانہ روایت کا تقاضا یہی ہے کہ جو ہمیں انسانیت کا فرض ادا کرنے کا امکان بہم پہنچاتے ہوئے جس کی کلیدی خصوصیت میں دو انسانی پہلو موجود ہوتے ہیں ۔ عام طور پر "علم اشتقاقیات" کے مطابق عربی زبان سے ماخوذ لفظ "انسان "کے لغوی معنی دراصل" نسیان" یعنی بھول جانے سے لیے گئے ہیں جبکہ ابتدائی ادوار کے بعض مفسرین جن میں ابن عباس بھی شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ انسان کا لفظ در حقیقت خالق حقیقی سےانسان کی پائی جانے والی اُنسیت فراموش کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔

انسان اپنی یادداشت کو تقویت دینے کےلیے خالق حقیقی سے انسیت اور اس کے سامنے گڑ گڑانے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہو سکتاہے جب ہم پروردگار عالم سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کو اپنا شعار بنائیں۔

قران حکیم کی ایک آیت میں ہے کہ اے لوگوں اُن میں سے مت بنو جو کہ مالک حقیقی کو بھول گئے ۔

انسان پر یہ حقیقت بھی آشکا ر ہے کہ اگر وہ اللہ سے ناطہ توڑ دے تو اُس کی سزا و جزا ضرور ملے گی ۔

ابن قطیر، ال رازی اور تباری جیسے مفسرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے خدائے ذولجلال کی موجودگی سے انکار کیا ان کا حافظہ یا تو کمزور رہا ہے یا وہ لوگ انتہائی تنگ نظری کا شکار رہے ہیں۔



متعللقہ خبریں