انقرہ میں بم حملے پر ابراھیم قالن کا تجزیہ

انقرہ میں بم حملے پر ابراھیم قالن کا تجزیہ

436279
انقرہ میں بم حملے پر ابراھیم قالن کا تجزیہ

عالمی برادری کی گزشتہ چار برسوں تک شامی عوام کو تحفظ دلانے کے امور میں زبردست ناکامی نے 21ویں صدی کی خونی ترین جنگ اور بد ترین انسانی بحران کا موجب بنی ہے۔ داعش کے خلاف جنگ کے نام تلے دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کرنے والے پہلے سے ہی بتدریج ابتر ہونے والی صورتحال میں کو مزید طول دینے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

انقرہ میں 17 فروری کے روز پیش آنے والے دہشت گرد حملے نے 28 جانیں لیں اور 61 سے زائد افراد کو زخمی کر دیا۔ ترکی 1980 کی دہائی سے اسی قسم کی دہشت گرد تنظیموں سے نبردِ آزما ہونے کی بنا پر اس قسم کی گھناونی حرکات سے اجنبی نہیں ہے۔ تاہم، 17 فروری کا حملہ کئی ایک اعتبار سے ایک پہلا حملہ تھا اور پی کے کے سمیت اس کے شام میں بازو ڈیموکریٹک یونین پارٹی کی مسلح شاخ وائے پی جی کے خلاف ہونے والی جنگ میں اس حوالے سے وسیع پیمانے کے نتائج سامنے آئیں گے۔

اسوقت ہر کس اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اس حملے کے پیچھے وائے پی جی کار فرما ہے۔ خود کش بم حملہ آور صالح نجار سن 2014 میں پی وائے ڈی کے زیر کنٹرول سرحدی چوکی حاسیکے۔ کامشلی سے ترکی میں داخل ہوا تھا۔ تا ہم یہ حملہ، PKK کے بھی شامل ہونے والی ایک سرپرستی کی حامل تنظیم کردستان معاشروں کی یونین کے سرغنوں کے تنظیم کے خلاف ترک شہروں جزرے، سلوپی، سُر اور نوسائبین میں کیے جانے والے سیکورٹی آپریشنز کے انتقام کے طور پر ترکی کے بڑے شہروں میں PKK کی جانب سے حملے کیے یا نہ کیے جانے کی کئی ہفتوں سے جاری بحث کے بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔

پی کے کے کو حالیہ دو ماہ میں تقریباً ایک ہزار کارکنان کی جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے تو اس تنظیم کے ایک گروہ نے اس طرز کے خود کش حملوں کی اپیل کی۔ اسی طرح تنظیم کے ایک دوسرے گروہ نے اس نظریے کی مخالفت کرتے ہوئے خود کش حملے سے پی کے کے کو داعش سے مشابہت ملنے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا دفاع کیا تھا۔ ہمارے اس نظریے سے یہ عیاں ہے کہ PKK کے اندر بحث طول پکڑ چکی ہے۔

علاوہ ازیں انقرہ کے خود کش حملہ آور کے آبائی وطن شام کے شہر آمودہ میں پی وائے ڈی اور وائے پی جی کے دہشت گردوں کی ترکی کے خلاف چھیڑی گئی جنگ کے حوالے سے پریس بیانات کو بھی ہمیں مد نظر رکھنا ہوگا۔ حملے سے ایک ہفتہ قبل دس فروری کے روز سامنے آنے والی ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں (http://www.dailysabah.com/war-on-terror/2016/02/18/footage-shows-pydypg-declaring-war-on-turkey-in-syrias-amude-hometown-of-ankara-bomber) تنظیم نے کچھ یوں کہا تھا : ہم آمودہ کی عوام کے طور پر اب کے بعد ، ہر ممکنہ امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی عوام کا تحفظ کریں گے۔ یہاں پر اس پی کے کے کی مدد کرنے کا بھی واضح طور پر اظہار کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم مغربی اور شمالی کردستان میں مقیم ہماری عوام کے ہمراہ صدر رجب طیب ایردوان کو ان کے اپنے ہی خون میں ڈبو دیں گے۔"

ان پریس بیانات کے بعد کردستان معاشروں کی یونین کے سرغنہ مراد قارا یلان کا کہنا ہے کہ انقرہ کا بم حملہ ترکی کی PKK اور شام کے عزیز شہر کے جوار میں وائے پی جی کے مورچوں پر سیکورٹی قوتوں کی کاروائیوں کے خلاف " ایک انتقامی حملہ" ہو سکتا ہے۔ شامی ڈیموکریٹک قوتوں کا وجود وائے پی جی کے جنگجووں سے بھر گیا ہے، حملے کے بعد جمع کردہ دلائل اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ مذکورہ حملے کے پیچھے وائے پی جی ہی کار فرما تھی۔ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ یہ لوگ اسوقت اپنی بری ساکھ اور بدنامی کے دھبے کو دور کرنے کی کوششوں میں ہے۔

اس حملے نے ترکی اور شام میں جاری دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ کا رخ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ترک اعلی حکام نے اس حملے کا جواب سخت دینے کے بارے میں بیانات دیتے ہوئے ان دہشتگردوں کا شمالی عراق اور شام میں صفایا کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے ۔

اس دوران ،PYD شام کی خانہ جنگی سے اپنا مفاد حاصل کر رہی ہے جس نے داعش کی آڑ میں امریکہ اور روس سمیت شامی حکومت کی آشیر باد حاصل کر رکھی ہے ۔روسی فضائیہ کے تعاون سے یہ تنظیم شام کے اعتدال پسند مخالفین کے زیر کنٹرول علاقوں کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے جس کی پشت پناہی امریکی جانب سے بھی ہو رہی ہے۔ اسد انتظامیہ کا کہ کھلا بیان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ PYD کو ملک کے شمالی حصوں پر کنٹرول حاصل کرنے کےلیے اسلحہ فراہم کر رہی ہے ۔

اس بیان کی روشنی میں ترکی کا موقف دودھ میں بال کی طرح صاف نظر آ رہا ہے جس نے اب امریکہ پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے۔ 24 نومبر کو روسی جنگی طیارے کے گرائے جانے کے واقعے کے بعد ترکی مخالف سرگرمیوں میں ملوث روس کی YPD کی حمایت کا مقصد واضح ہے لیکن بعض حلقوں نے یہ سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے کہ آیا ترک پالیسیوں کے پس پردہ کیا عزائم کارفرما ہیں۔

داعش کے خلاف جاری جنگ ایک پیچیدہ معمہ بن چکا ہے YPD داعش کے خلاف جنگ میں ملوث دیگر گروہوں پر حملے کر رہی ہے جس کی وجہ سے داعش اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کا موقع حاصل کر رکھے ہے جس کا فائدہ اسد انتظامیہ کو بھی خوب پہنچ رہا ہے۔



متعللقہ خبریں