جنگ، ڈپلومیسی اور شام کا المیہ

جنگ، ڈپلومیسی اور شام کا المیہ

431985
جنگ، ڈپلومیسی اور شام کا المیہ

شام کی جنگ سے منظر عام پر آنے والی پیش رفت میں سے ایک ڈپلومیسی کے محض عملی طور پر طاقتوں کے درمیان کسی منصفانہ توازن کے قیام کے وقت ہی با معنی ہو سکنے کی حقیقت ہے۔

مغربی مملکتیں شام میں سیاسی حل کے بارے میں بیانات جاری کررہی ہیں تو روس اپنے فوجی حملوں میں واقعات کا رخ بدلنے کے لیے اضافے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

11 فروری کے روز رات گئے دشمنی کا سد باب کرنے کی خاطر طے پانے والا میونخ معاہدہ جنگی میدان کی صورتحال کو بدل سکنے کی ماہیت کا حامل دکھائی نہیں دیتا۔

گزشتہ دو برسوں کے اندر ماسکو سمیت کلیدی اہمیت کے حامل اداکاروں نے شام میں فوجی حل ممکن نہ ہو سکنے کے موقف کو مسلسل دہراتے ہوئے سفارتی حل کا عندیہ دیا ہے۔ تا ہم روس۔ ایران اور شامی انتظامیہ پر مبنی اتحاد نے اس کے متضاد موقف کے صحیح ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔

جنیوا مذاکرات نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2254 نمبر کی قرار داد پر دو شرائط وضع کی ہیں جو کہ فائر بندی، انسانی امداد اور قیدیوں کی رہائی اور دیگر معاملات پر کاری ضرب لگانے والے یہ نئے فوجی حربے ہیں۔

اسوقت شامی مخالفین کی نمائندگی کرنے والی ہائی نگوشیئشن کمیٹی کی جنیوا مذاکرات میں شمولیت کا معاملہ 2254 نمبر کی قرار داد پر عمل در آمد پر منحصر ہے۔

ریاض حجاب کی قیادت کی شامی مخالفت 25 فروری کو ملتوی ہونے والے مذاکرات کے بارے میں مشکوک موقف اپنانے کے لیے تمام تر وجوہات کی مالک ہے۔ اقوام متحدہ مذاکرات کو شروع کرنے کے لیے بذات خود وضع کردہ اصولوں پر کار بند رہنے سے عاری ہے۔

ڈپلومیسی پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ تا ہم ، ہمیں حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا موقف وضع کرنا ہو گا، کریملن ایک جانب سست رو اور منفی طور پر متاثر ہوتے ہوئے آگے بڑھنے والے سیاسی مذاکرات میں شامل ہونے کا مظاہرہ کرنے کی خاطر دنیا بھر کے مختلف ملکوں کو اپنے سیکرٹری خارجہ کو روانہ کر رہا ہے تو دوسری جانب شام میں بر سر پیکار طاقتوں کے توازن کو بدلنے کے زیر مقصد روسی طیاروں کو علاقے میں روانہ کر رہا ہے۔

روسی ڈپلومیسی شام میں روسی فوجی کاروائیوں کو خفیہ رکھنے کے لیے ایک پردے کا کام کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں شام میں روسی حملے ، اس کے حربوں میں تبدیلی آنے اور کسی بھی مرکزی مسئلے کے حل سے ہمکنار نہ ہونے والے یوکیرین کے مسئلے کو پس پردہ ڈالے جانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

روس، شہریوں پر بم برساتے ہوئے ، کسی اجتماعی نقل مکانی کے ماحول کو پیدا کرنے کا مقصد رکھتا ہے کہ اس طریقے سے یہ ترکی اور افریقہ کو سزا دینے کے درپے ہے۔ تو یہ ایک جانب سے امریکہ کو اپنی حکمت عملی کو لاگو کرنے کے حوالے سے پیغام بھی دے رہا ہے ۔ روسی صدر ولادیمر پوٹن کی تلون مزاجی کی بنا پر ظہور پذیر ہونے والے سڑیٹیجک خلا کو کئی ایک مفہوم کے ساتھ پُر کیا جا رہا ہے۔

شامی فوجیں روزانہ درجنوں انسانوں کو ہلاک کر رہی ہیں تو داعش کے خلاف یک طرفہ حکمت عملی اخلاقی طور پر سوالیہ نشانات کی ماہیت اختیار کر رہی ہے۔ یہ واضح ہے کہ داعش کے خلاف جدوجہد جاری رکھتے ہوئے اسے شکست سے دو چار کیا جانا چاہیے۔ تا ہم اس چیز کو شامی صدر کی انتظامیہ اور اس کے حمایتیوں کے لیے کسی فوجی فتح کی شکل نہ دینی چاہیے اور نہ ہی ایسا ہو سکتا ہے۔

ہزاروں کی تعداد میں شامی شہری داعش کی دہشت گردی سے کہیں زیادہ اسد انتظامیہ کی دہشت گردی اور روسی بمباری سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ امریکہ کی شام پالیسیوں پر تنقیدی موقف اپنانے والے لارنٹ فابیوس فرانسیسی سیکرٹری خارجہ کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے ہیں ، جنہوں نے امریکہ کی شام پالیسیوں کو "غیر واضح"، اور کسی مضبوط " عزم و استحکام" سے مبرا ہونے کے طور پر پیش کیا تھا۔

انہوں نے علاوہ ازیں یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ کی شامی کیمیاوی ہتھیاروں کے لیے وضع کردہ سرخ پٹی کو پار کرنے کے بعد کی عدم کاروائی نے پوٹن کی یوکیرین اور شام میں پیش قدمی کرنے میں حوصلہ افزائی کی ہے۔فابیوس کے ان بیانات کی کچھ اس طرح تصدیق ہوتی ہے کہ امریکہ، روس اور اسد انتظامیہ میدان ِ جنگ میں فوجی بالادستی قائم کرنے کے زیر مقصد اپنی تمام تر فوجی طاقت کو ڈیموکریٹک یونین پارٹی پی وائے ڈی اور اس کی فوجی شاخ پیپلز پروٹکشن یونین، وائے پی جی کے لیے بروئے کار لا رہی ہے۔

یہ تنظیمیں امریکہ، روس اور اسد انتظامیہ کے اسلح کی خریدار کے طور پر ان سے فوجی ساز وسامان اور فضائی امداد حاصل کر رہی ہیں اور داعش کے خلاف نبرد آزما ہیں۔

تا ہم داعش کے خلاف جدوجہد کی آڑ میں پی وائے ڈی شام کے شمال میں خود مختار علاقے کے اعلان کے بعد اپنی سرحدوں کو وسعت دے رہی ہے۔

دریں اثناء بار ہا تربیت و اسلحہ فراہم کیے جانے کا وعدہ کیے جانے والے شامی مخالف گروہو ں کو روسی طیارے اور شامی فوج نقصان پہنچا رہی ہے تو ان کو داعش کے حملوں کا بھی سامنا ہے۔

دس فروری کی پیش رفت اس صورتحال کی ایک مثال ہے۔ روسی طیاروں کی مدد سے وائے پی جی نے مخالف گروہوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے مناگاہ فوجی اڈے پر قبضہ جما لیا ہے۔ کوبانی میں بھی صورتحال اسی قسم کی ہے۔

یہ صورتحال کافی تشویش ناک ہے اور جنیوا مذاکرات سے کس قسم کے نتائج سامنے آسکنے کا معاملہ واضح نہیں ہے۔

اس اثنا میں حکومت ترکی کی طرف سے تجویز کردہ البتہ مغرب کی تسلی بخش وضاحت کے بغیر شام کی مدبر حزب اختلاف کی حمایت سے شامی پناہ گزینوں کےلیے ایک محفوظ علاقے کے قیام کا خیال اب امریکہ کی دلچسپی کا محور بن رہا ہے۔

ابھی گزشتہ سال ہی بعض سفارت کاروں اور تجزیہ نگاروں نے امریکی صدر براک اوباما سے کہا تھا کہ وہ شام اور ترکی کی سرحد پر ایک محفوظ علاقے کے قیام کےلیے اپنی کوششیں صرف کریں ۔اس سلسلے میں شام میں امریکہ کے سابق سفیر رابرٹ فورڈ نے 9 مارچ سن 2015 کی اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ شامی مخالفین کے تحفظ کےلیے یہ ضروری ہے کہ ایک ایسا علاقہ تشکیل دیا جائے جہاں کی فضائی حدود ممنوع ہو تاکہ مخالفین کی مدد کی جا سکے ۔

21 اپریل سن 2015 کو امریکی ریپبلیکن اور ڈیموکریٹیک پارٹی کے بعض سینیٹرز نے صدر اوباما پر زور ڈالا تھا کہ وہ شام میں محفوظ علاقے کے قیام کی منظوری دیں۔

ایک امریکی سابقہ سفارت کار فریڈرک سی ہوف نے اس بارے میں کہا تھا کہ اگر فضائی حدود کی ممانعت قبول کرلی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں داعش کی کمر ٹوٹ جائے گی کیونکہ اسے اپنی طاقت بڑھانے کےلیے انسانی و دیگر وسائل میسر نہیں ہونگے۔

این میری سلاٹر نے بھی کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اسد کے حوالے سے صبر ختم ہو گیا ہے اور وہ شام اور اس کی عوام کے تحفظ کےلیے میدان میں کود پڑنے کی تیاریوں میں ہیں۔

گزشتہ سال شام کی صورت حال میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں جن میں روس نے خود ساختہ فضائی حدود سے آراستہ ایک علاقہ تشکیل دے دیا جس میں اسد نوا زحکومت کی حمایت بھی شامل رہی ۔

مائیکل اگنا ٹیف اور لیون ویسل ٹئیر نے اس بارے میں مایوسی کا اظہار کرتےہوئے تاثر دیا ہے کہ شام انتظامیہ اخلاقی دیوالیئے کی حدوں کو عبور کر چکی ہے ۔ مغربی دنیا کی یہ شرمندگی اور اس کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ پانچ سال سے بشار الاسد کی اقتدار سے معزولی کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے اور یورپ میں پناہ گزینوں کی یلغار سمیت شام پر کیمیائی اسلحے کا استعمال کیا گیا ہے۔

نیکولس برنس اور جیمز جیفری نامی امریکی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ پہلے ضروری ہے اوباما اور ان کی ٹیم ماضی میں مسترد کردہ اپنے فیصلوں پر دوبارہ سے نظر ثانی کریں گے جس کے بعد شمالی شام کے علاقے کو محفوظ زون میں تبدیل کرتے ہوئے وہاں فضائی حدود کو ممنوعہ قرار دے دیا جائے گا۔

ڈینس روس نے بھی کہا ہے کہ روسی صدر پوٹن کی مخالفت کے باوجود میں بھی شام کے محفوظ علاقے کے قیام کے ممکنہ امریکی فیصلے کی تائید کروں گا۔

شام کی جنگ سے حاصل نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سفارتی کوششیں صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہیں جب ان میں ہم فکری اور یکساں توازن شامل ہو اگر اس کے بعد کی صورت حال میں شامی وفود سے مذاکرات کرنے ہیں تو ان میں بھرپورعالمی حمایت ضروری ہے ۔

شامی مخالفین کی حمایت اور شامی عوام کےلیے ایک محفوظ علاقہ تشکیل دیئے بغیر صرف سفارتی کوششوں پر اکتفا کرنا شام کو ایک ناقابل تلافی جنگ میں جھونک دے گا۔



متعللقہ خبریں