ہماری بہادر عورتیں۔20

آج کی ہماری بہادر عورت ہے 'عائشہ یلدز کینتر' ہے جس نے اپنے پیشے کے ساتھ عشق کیا اور یہ عشق آخر دم تک جاری رہا

2142838
ہماری بہادر عورتیں۔20

فیری بوٹ کے پُر ہجوم ماحول میں دو نوجوانوں کی نگاہیں ایک دوسرے سے ٹکرا ئیں۔ ایک بار پھر بے اختیاری میں دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔  ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہونے کے باوجود انہیں  بہت قربت کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کے بعد دونوں طرف سے ایک مبہم سے تبّسم کا تبادلہ ہوا۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے سے مخاطب نہیں ہوئے لیکن دونوں کو محسوس ہو رہا  تھا کہ یہ خوشی اور قربت کا احساس یک طرفہ نہیں ہے۔

 

اس کے بعد اچانک ہجوم میں ہلچل ہوئی اور وہ دونوں ایک دوسرے کی نگاہ سے اوجھل ہو گئے۔ وہ اپنے آپ سے اُلجھ رہی تھی" آخر مجھے کیسے پتا نہیں چلا؟"  اور"کیا ہم دوبارہ مل  سکیں گے" یہ اور اس جیسے متعدد سوال اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔

 

اس رات فاطمہ گُل انہی جذبات کے ساتھ اپنے بستر پر دراز ہوئی اور ہجوم کے درمیان نظر آنے والے اس سانولے نوجوان  سے دوبارہ ملاقات کی امید کے ساتھ سونے کی کوشش کرنے لگی۔ جب کسی صورت نیند نہ آئی تو وہ اُٹھ کو ہال کمرے میں آ گئی۔ رات کے دو بج رہے تھے۔

 

چند منٹ بعد اس کی ماں بھی ہال میں آ گئی۔ اُسے بھی نیند نہیں آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر دونوں خاموشی سے بیٹھی رہیں  پھر فاطمہ گُل نے نہایت سنجیدگی سے ماں سے پوچھا امّی کیا آپ کو پہلی نظر میں عشق پر یقین ہے؟   کیا آج بھی فرہاد اور شیریں، لیلی اور مجنوں اور رومیو اور جیولٹ جیسا عشق ممکن ہے یا پھر یہ صرف فلموں اور ناولوں کا موضوع ہیں؟

 

اس کی ماں مسکرائی اور کہا کیوں نہیں یقیناً مجھے پہلی نظر میں عشق پر یقین ہے۔ بلکہ میں تمہیں حقیقی زندگی سے ایسے عشق کی مثال بھی دے سکتی ہوں۔ یہ سُن کر فاطمہ گُل کی آنکھیں جگمگا اُٹھیں اور وہ پوری توجہ سے ماں کو سُننے لگی۔

 

 

کسی زمانے میں استنبول میں احمد ناجی کینتر نامی ایک نوجوان رہتا تھا ۔ وہ بڑے معتبر خاندان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹا تھا۔ لندن میں  حصولِ تعلیم کے دوران اس کی ملاقات اولگا سینتھا سے ہوئی اور  دونوں پہلی نظر میں ایک دوسرے پر عاشق ہو گئے۔ نوجوان احمد ناجی نے اس خوبصورت انگریز عورت کے ساتھ شادی کر لی اور اس کے ہمراہ استنبول واپس لوٹ آیا۔ لیکن اس کے کنبے نے غیر ملکی دلہن کو قبول نہیں کیا۔ اس پر اولگا سینتھا مسلمان ہو گئی اور اپنا نام تبدیل کر کے نادیدہ کینتر رکھ لیا۔ یہی نہیں اپنی جائے پیدائش کو بھی لندن سے تبدیل کر کے 'باندرما' کر لیا۔

 

احمد کینتر ایک تعلیم یافتہ اور ذہین سفیر بن چُکا تھا لیکن اس دور کے قانون کی رُو سے سفیروں کو غیر ملکی عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ احمد ناجی کینتر نے  اپنی بیوی سے الگ ہونے کی بجائے استعفیٰ دینے کو ترجیح دی۔

یہ استعفیٰ کینتر کنبے کے لئے ایک سنگِ میل ثابت ہوا اور دونوں میاں بیوی نے عشق کی خاطر غربت کے خطرے تک کو مول لے لیا۔

 

فاطمہ گُل کی ماں نے تھوڑے توقف کے بعد دوبارہ بتانا شروع کر دیا "اب میں تمہیں ایک مختلف نوعیت کے عشق کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔ یہ عشق اپنے پیشے اور فنونِ لطیفہ سے  عشق ہے۔ یہ جس جوڑے کی ابھی میں نے تمہیں کہانی سُنائی ہے  1928 میں ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔  عائشہ یلدز کینتر  نامی اس لڑکی نے بھی ترکیہ کی  بہترین اداکارہ کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر  اپنا نام سنہری حروف میں رقم کر دیا۔

 

 

عائشہ یلدز کینتر چار افراد کے کنبے میں پلی بڑھی۔ اس کے کنبے کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ ایک انٹرویو میں یلدز نے کہا " میں نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے آپ کو غربت میں دیکھا۔ آج جب میں آنکھیں بند کر کے ماضی کو سوچتی ہوں تو ہمیشہ ایک ہی منظر دِکھائی دیتا ہے اور وہ ہے کرائے کے گھر تبدیل کرنے کا منظر۔ ہم ہمیشہ نسبتاً سستے کرائے والے گھر میں منتقل ہوتے رہتے تھے۔

 

یلدز کے اسکول کا دور بھی کچھ زیادہ روشن نہیں گزرا۔ مڈل اسکول کے دوران وہ  ہر سال فیل ہو جاتی تھی۔ وہ  کمرہ جماعت میں پیچھے پیچھے رہنے والی طالبہ تھی۔1944 میں انقرہ کے گورنمنٹ موسیقی اسکول میں اُسے بحیثیت بلا معاوضہ  ہوسٹل طالبہ کے داخلہ مِل گیا۔ امتحان میں شاندار کامیابی کی وجہ سے اس نے دو سالہ تعلیم کو ایک سال میں مکمل کر لیا۔

1948 میں وہ سرکاری تھیئٹر میں شامل ہو گئی اور پہلی دفعہ  شیکسپیئر  کے ڈرامے "بارہویں رات" میں اولیویا کا کردار ادا کیا۔

 

1955 میں اس نے روکے فیلر وظیفہ حاصل کیا  اور امریکن تھیئٹر ونگ، نیبر ہُڈ پلے ہاوس، یال ڈرامہ اسکول  اور ایکٹرز اسٹوڈیو  میں اداکاری اور اداکاری کی تعلیم میں نئی تکنیکوں  پر تحقیق کی۔ اس کے بعد وہ ایک تسلسل سے  امریکہ اور برطانیہ میں کام کرتی رہی۔ اس کے بعد اس کی تعیناتی  انقرہ گورنمنٹ موسیقی اسکول میں ہو گئی۔

 

دلچسپ بات یہ کہ یلدز کینتر کا ننہال خود تھیئٹر سے منسلک ہونے کے باوجود یلدز کے موسیقی اسکول میں جانے کے خلاف تھا۔ یلدز کے والد یعنی احمد کینتر نے اپنی بیوی سے چوری چھُپے بیٹی کو موسیقی اسکول میں داخل کروا دیا اور اس طرح گھر کے دوسرے بچے یعنی یلدز کینتر کے بھائی مشفق کینتر کے لئے بھی موسیقی اسکول کا راستہ کھُل گیا۔

 

1959 میں دونوں بہن بھائی نے گورنمنٹ تھیئٹر سے استعفیٰ دے کر ایک تھیٹر اداکار شکران گیون گور کے ساتھ مِل کر سِٹی تھیئٹر کمیونٹی قائم کر لی۔  یلدز کینتر اور شکران گیون گیوراپنے کنبوں کی مخالفت کی وجہ سے  پہلی ملاقات سے 8 سال بعد رشتہ ازدواج میں بندھ سکے۔

 

11 نومبر 1968 میں استنبول میں شیکسپیئر کے ڈرامے ہیملٹ کے ساتھ کینتر تھیئٹر کا قیام عمل میں آیا۔

یلدز کینتر نے اپنی پوری پیشہ وارانہ زندگی میں قومی اور بین الاقوامی میلوں میں " بہترین اداکارہ" کے ایوارڈ حاصل کئے۔ بحیثیت سینما اداکارہ کے تین دفعہ "گولڈن اورنج" ایوارڈ حاصل کیا۔ اس نے  100 سے زائد تھیئٹر ڈراموں فلموں اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کیا۔

2019 میں عائشہ یلدز کینتر 91 سال کی عمر میں وفات پا گئی۔

 

 

اگلے دن دوبارہ سے فاطمہ گُل کی روزمرّہ بھاگ دوڑ کا غاز ہو گیا۔ اپنی ماں سے سُنی ہوئی کہانی میں وہ یلدز کینتر اور اس کے کنبے سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ اب اُسے یقین ہو گیا تھا کہ کتابوں اور فلموں میں جس عشق کی بات کی جاتی ہے وہ حقیقی زندگی میں بھی ممکن ہے لیکن  اصل میں عشق کی اور بھی بہت سے شکلیں ہیں مثلاً اپنے پیشے سے عشق۔

 

اُس نے خود کلامی میں کہا  کہ " خلوصِ دل سے اپنے پیشے سے لگاو اور وابستگی بے حد خوبصورت چیز ہے۔ دیکھتے ہیں میں بھی بہترین معمار بن پاتی ہوں کہ نہیں؟" وہ انہی خیالوں میں مگن جا رہی تھی کہ اچانگ کسی سے ٹکرا گئی۔  بدحواسی میں معذرت طلب کرنے پر سامنے والے شخص نے کہا کہ اصل میں غلطی میری ہے۔۔۔ میں معذرت چاہتا ہوں۔  فاطمہ گِل نے نگاہیں اُٹھا کر دیکھا تو ششدر رہ گئی کیونکہ یہ وہی سانولا نوجوان تھا جسے اُس نے کل فیری بوٹ میں دیکھا تھا۔

 

 

آج کی ہماری بہادر عورت تھی'عائشہ یلدز کینتر'۔ ترکیہ کی ایسی معروف اداکارہ جس نے کبھی حالات کے سامنے ہتھیار نہیں پھینکے اور خلوصِ دل کے ساتھ اپنے پیشے سے وابستہ رہی۔



متعللقہ خبریں