ہماری بہادر عورتیں۔11

آج ہم نے آپ کو جس بہادر ترک عورت کی کہانی سُنائی وہ ہے "حالت چامبل"

2114863
ہماری بہادر عورتیں۔11

سوزان گھر میں داخل ہوتے ہی پُکاری :"بچّو میں آ گئی"۔ ایک مصروف ترین دن گزارنے کے بعد اس کا دِل چاہ رہا تھا کہ گھر جاتے ہی جوتے اُتار ے اور   صوفے پر دراز ہو جائے۔ گھر میں کوئی کام اُس کا منتظر نہ ہو لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ گھر میں بہت سے کام اور بچّے اس کے منتظر تھے۔

 

 بچّوں کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے پر اُسے تجسس ہوا اور اس نے کمروں میں جھانکنا شروع کر دیا۔ ہال میں داخل ہوتے ہی اس کا منہ کھُلے کا کھُلا رہ گیا ۔ اس کے بیٹے ایرن اور بیٹی حوّا  نے پورے ہال کو تہہ و بالا کر رکھا تھا۔ کرسیوں اور صوفوں کو گھسیٹ پر ان کے اوپر چادر ڈال کے ایک غار کی شکل دے رکھی تھی اور اس کے اندر بیٹھے  کھیلنے میں اتنے مگن تھے کہ انہیں ماں کے آنے کی خبر تک نہیں ہوئی۔ صوفوں کے کُشن ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ ایک لمحے کو تو سوزان کو پتہ ہی نہیں چلا کہ ہنسے یا روئے۔ اب انہیں کون سمیٹے گا۔ اتنے میں ایرن اس غار سے باہر نکلا اور ماں کو دیکھ کر جوش سے بولا امّی دیکھیں ہم نے کیا بنایا ہے۔ پچھلے دنوں بابا جان کے ساتھ ہم نے ایک فلم دیکھی تھی ناں جس میں ایک ماہرِ آثارِ قدیمہ ہاتھ میں چابک  تھامے  خزانہ تلاش کر رہا  تھا۔ ہم بھی خزانہ تلاش کر رہے ہیں امّی آپ بھی آئیں ناں مِل کے کھیلتے ہیں۔ سوزان نے پہلے تھوڑا ترّدد کیا لیکن پھر اپنے بیٹے کی معصوم خواہش کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے۔ دونوں ماں بیٹا راستے میں پھیلائے گئے پھندوں سے بچتے بچاتے غار میں پہنچے۔ حوّا بھی ماں کو دیکھ پر بہت خوش ہوئی۔ اندر پہنچ کر سوزان نے کہا کہ آئیں  میں آپ کو ایک سچ مُچ کی آرکیالوجسٹ کی کہانی سناتی ہوں۔ اس آرکیولوجسٹ  کا نام ہے "حالت چامبل"۔

 

 

حالت چامبل کو چند ایک الفاظ میں بیان کرنا پڑے تو ہم کہیں گے وہ ایک مُبدی تھی۔ ترکیہ میں بہت سے ایسے کام ہیں جن کا آغاز  خالد چامبل نے کیا مثلاً وہ پہلی ترک خاتون آرکیالوجسٹ تھی، پہلی حطیطو لوجسٹ، پہلی ترک خاتون تیغ زن، اولمپک کھیلوں میں شامل ہونے والی پہلی ترک عورت اور ترکیہ میں اوپن ایئر عجائب گھر قائم کرنے والی بھی پہلی عورت تھی۔

 

چامبل 1916 میں برلن میں پیدا ہوئی۔ اُس کے والد اتاترک کے قریبی دوست حسن جمیل پاشا تھے اور ماں اس دور کے برلن کے سفیر ابراہیم حق پاشا کی بیٹی رمزیہ خانم تھیں۔ خالد چامبل کچھ عرصے تک اپنے والدین کے ہمراہ بیرونِ ملک مقیم رہی اور جب جمہوریہ ترکیہ کا قیام عمل میں آیا تو 8 سال کی عمر میں ترکیہ واپس آ گئی۔ اس نے مڈل اور ہائی اسکول تعلیم 'آرناوط قوئے امریکن گرلز کالج' سے حاصل کی۔ ہائی اسکول کے دور میں وہ تیغ زنی سے متعارف ہوئی اور اس کھیل میں مہارت حاصل کرنا شروع کر دی۔

 

2012 کے ایک انٹرویو میں جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ نے تیغ زنی کیسے شروع کی تو چامبل نے کہا کہ " جن جرمن کتابوں کا میں نے مطالعہ کیا ان میں جنگجووں کی کہانیاں تھیں۔ میں ان کہانیوں سے بہت متاثر ہوئی اور یہ دلچسپی مجھے تیغ زنی کی طرف مائل کرنے کا سبب بن گئی"۔

 

ہائی اسکول تعلیم مکمل کرنے کے بعد آرکیالوجی کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے لئے حالت چامبل پیرس چلی گئی۔ یہاں بھی وہ  کھیلوں سے لا تعلق نہیں رہ سکی اور 'صواد فیٹگیری آشینی' کے ہمراہ 1936 کے برلن اولمپکس میں مدعو کی گئی اوّلین ترک خواتین میں شامل ہو گئی۔ حتّیٰ کہ ٹورنامنٹ کے دوران   آڈلف ہٹلر نے ا سے ملاقات کی دعوت بھی دی لیکن حالت چامبل نے یہ کہہ کر دعوت مسترد کر دی کہ جب تک ترک حکومت کی اجازت نہیں ملتی میں ہٹلر سے ملاقات نہیں کر سکوں گی۔

 

کھیلوں کی زندگی سے ہٹ کر اُس نے پیشہ وارانہ زندگی کے لئے آرکیالوجسٹ یعنی ماہرِ آثارِ قدیمہ کا شعبہ منتخب کیا اور ترکیہ کی نامور آرکیالوجسٹ بن گئی۔ عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد 1940 کے سالوں میں اس نے جرمن آرکیالوجسٹ ہیلمتھ بوسرٹ کے ہمراہ ترکیہ کے قارا تیپے  ٹیلے پر حیطیط آبادی کے آثار کی تلاش کا کام شروع کر دیا۔ تحقیقی کام کے دوران اس نے 'حطیط ہیروگلیفکس' یعنی حطیطیوں کی علامتی زبان کو پڑھنے میں مدد دی۔ یہی نہیں قارا تیپے۔آسلان تاش ملّی پارک  کے نام سے ترکیہ کے پہلے اوپن ایئر عجائب گھر کے قیام میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا۔

 

اس شاندار عورت کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ اس نے  استنبول یونیورسٹی میں  'قبل از تاریخ' کا شعبہ قائم کیا۔ وفات سے ٹھیک دو سال قبل یعنی 2012 میں جب اس سے کامیاب زندگی کا راز  پوچھا گیا  تو اس نے کہا " کام ، کام اور کام"۔

 

ہال اور بھی زیادہ بکھر گیا تھا اور سوزان کے بچے ایرن اور حوّا اب حطیط زبان کے راز کھولنے میں لگے ہوئے تھے۔ ایک طویل عرصے سے اُس نے  اپنے بچّوں کے ساتھ اس قدر  پُر لطف وقت نہیں گزارا تھا۔

 

ایک دم ایرن نے پوچھا امّی کیا واقعی حالت چامبل نے یہ سب کچھ کیا تھا۔  سوزان نے کہا بالکل وہ نہ صرف ان کاموں میں بلکہ اور بہت سے کاموں میں نہایت کامیاب عورت تھی۔ اب سوال کی باری حوّا کی تھی اس نے کہا امّی اگر میں بھی کھلاڑی یا پھر آرکیالوجسٹ یا پھر خالد چامبل کی طرح دونوں ہی بننا چاہوں  تو مجھے کیا کرنا چاہیے۔ سوزان نے مسکرا کر کہا کہ اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے سب سے پہلے تو تمہیں حالت چامبل کے طرح بہت سا مطالعہ کرنا ہو گا اور اس کے بعد بالکل اُسی کی طرح بے حد محنت اور کام کرنا ہو گا۔

کمرے کا حال دیکھ کر سوزان مسکرائی اور چُٹکی بجا کر کہا کہ محنت اور کام آپ دونوں ابھی سے شروع کر سکتے ہیں مثلاً آئیں اس بکھرے ہوئے کمرے کو مِل کر ٹھیک کرتے اور اس کے بعد مِل کر شام کا کھانا بناتے ہیں۔ دونوں بچّوں نے ٹھیک ہے  کا نعرہ لگایا اور ہنستے ہوئے ماں سے لپٹ گئے۔

جی تو آج ہم نے آپ کو جس بہادر ترک عورت کی کہانی سُنائی وہ ہے حالت چامبل۔

 



متعللقہ خبریں