تجزیہ 64

اسرائیل کے غزہ پر جارحانہ حملے اور مغربی ممالک کی بے حسی پر جامع جائزہ

2065704
تجزیہ 64

غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت سے روزانہ ہزاروں شہریوں کے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والا المیہ تا حال جاری ہے۔ اس جارحیت میں  شیر خوار  بچوں اور بچوں کا وحشیانہ قتل، حاملہ خواتین  کا ان کے بچوں سمیت  قتل اور زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینسوں کو نشانہ بنانا شامل ہیں۔پانی، ایندھن، بجلی اور انٹر نیٹ  تک رسائی  جیسی  بنیادی خدمات منقطع ہیں  تو اسپتالوں، اسکولوں اور مہاجر کیمپوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جہاں ہزاروں کی تعداد میں نہتے لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں، وہیں مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کو اجتماعی حراست میں لیا جا رہا ہے۔غیر قانونی یہودی آباد کار غیر مسلح فلسطینیوں کو نشانہ بنا کر دہشت گردانہ کارروائیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں تو  اسرائیلی فوجی نازیوں کی طرف سے یہودیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی تقلید کرتے ہوئے  زیر حراست  فلسطینیوں کے ٹخنوں پر نمبروں کی حامل ہتھکڑیاں لگا رہےہیں۔

سیتا  سیکیورٹی  ریسرچ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا اس موضوع سے متعلق جائزہ ۔۔۔

گزشتہ 40 دنوں سے  مشاہدہ  ہونے والایہ وحشیانہ طویل قتل عام اور نسل کشی   اسرائیل   کے نام نہاد حق کے   استعمال  کی آڑ میں جاری  ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو یہودیوں کے مذہبی بالا دستی  پر مبنی جنگی بیانات    پر عمل پیرا ہیں تو  انہیں واشنگٹن میں خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔ جب کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے، بدقسمتی سے مغربی ممالک بالخصوص امریکہ سمیت  مغربی ممالک کا ایک بڑا حصہ نہ صرف چپ سادھے ہوئے ہے بلکہ  اسرائیل کے نام نہاد اپنے دفاع کے حق کی  تشریح کی اہم سطح پر حمایت بھی کر رہا ہے۔ مین  مرکزی مغربی میڈیا اس ظلم کی متعصبانہ اور واضح تعصب کے ساتھ رپورٹنگ کر رہا ہے۔ غزہ میں مارے جانے والے شیر خوار  بچوں، کم سن بچوں اور عورتوں کے لیے  "مر گئے" کی اصطلاح استعمال کی جا تی  ہے تو   دوسری جانب  اسرائیل میں مارے جانے والوں کو "قتل شدہ" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس دوہرے معیار، منافقت اور اسرائیل کے اقدامات کو جائز قرار دینے  والے  غالب بیانات،  عالمی برادری میں اسرائیل کے لیے "استثنیٰ ریاست"  کے تاثر کے واضح  عکاس ہیں۔

اسرائیل کو دی گئی یہ استثنائی حیثیت  غزہ کے قتل عام کے اثرات  جیو پولیٹکل نتائج سے بھی آگے جاچکے  ہیں۔ 40 دنوں سے جاری واقعات جدید بین الاقوامی نظام کے نام نہاد ترقی پسند کھوکھلے پن کی نشاندہی کرتے ہیں۔. دوسرے الفاظ میں، یہ  زیادہ بہتری  کی طرف لیجانے کے مفروضے کے حامل  تاریخ کے لکیری بیانیے کی نقصان دہ فطرت کے مظہر ہیں۔مشاہدہ کردہ  جنگ کی بر بریت  مغربی اصولی تسلط کے وسیع پیمانے  کے  بگاڑ کی واضح علامت ہے۔

جدید بین الاقوامی نظام کی   نہ صرف مادی طاقت پر نشاط کی گئی  ہے؛ بلکہ بیک وقت  1945 میں اقوام متحدہ کے نظام کے قیام کے  ساتھ اصولوں  پر مبنی  ایک بین الاقوامی نظام کو  قائم کرنے کی بھی  کوشش کی گئی ۔ مملکتوں نےبین الاقوامی تنظیموں کے قیام  اور قواعد و ضوابط کو وضع کر کے، تنازعات کا سد باب کرنے، حملہ آوروں سے متاثرین کی حفاظت، اور زیادہ پرامن عالمی نظام کی تشکیل  کا عندیہ دے رکھا ہے۔ مزید برآں، دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانی حقوق پر توجہ مرکوز کرنے والی جامع دستاویزات تشکیل دی گئیں۔ جن کا مقصد ریاستوں کو ان اصولوں کے لیے جوابدہ بنا کر ایک پُرامن بین الاقوامی نظم قائم کرنا ہے۔ تاہم، اس نظام کی معمار مغربی اقوام  اکثر ان معیارات پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ان اداروں کو مغربی تسلط کو مضبوط کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔

غزہ میں اسرائیل کے مظالم پر مغربی ممالک کا ردعمل مغرب کی گرتی ہوئی اصولی برتری  کی  موجودہ  زوال شد ہ حد کو بیان کرتا ہے۔ اس برتری کے غائب ہونے کا آغاز غزہ سے نہیں ہوا۔ مغرب کی نام نہاد معیاری بالادستی پہلے ہی اپنی ساکھ کھو چکی تھی۔ عراق پر امریکی حملہ جھوٹے ڈھونگ پر مبنی تھا  جس کے  نتیجے میں تقریباً دس لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔جب عرب بغاوتیں شروع ہوئیں تو اس نے یہ ثابت کیا تھا کہ  ڈیموکریسی  ایک ایسا آلہ  کار ہے جسے  چُن چُن کر استعمال کیا جا سکتا  ہے۔ مصر میں سیسی کی قیادت میں پرتشدد فوجی بغاوت کے بعد مغربی میڈیا نے اسے ’’جمہوریت کی بحالی‘‘ قرار دیا۔ اس کے بعد سیسی کا یورپی دارالحکومتوں میں مشرق وسطیٰ میں  جمہوریت کی بحالی کی علامت کے طور پر خیر مقدم کیا گیا۔ شام میں اسد حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد مغرب غیر فعال رہا۔ امریکہ نے شمالی شام میں داعش کے خلاف لڑائی کے نام پر  PKK دہشت گرد تنظیم کی  شاخ YPG کے ساتھ شراکت داری قائم کی۔فرانس نے لافارج کمپنی کو شام میں داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی۔  گو  کہ بہت سے یورپی ممالک نے PKK کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے  لیکن انہوں نے PKK کو اپنی سرحدوں کے اندر  سرگرمیوں کی اجازت دی۔ یہ تمام   عوامل  مغرب کی جانب سے  اپنے معیار کو  محض  صرف اپنے  حکمت عملی  مفادات کے لیے استعمال کرنے کی مثالیں ہیں۔ یوکرین  پر روس کے حملے کے بعد، مغرب نے اجتماعی طور پر ولادیمیر پوتن کی عصرِ  حاضر کے ہٹلر کے طور پر تشریح کی  اور  اسے شہریوں کا قتل عام کرنے ، شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے، لوگوں کو اپنی ہی سر زمین پر مہاجر بنانے اور  یوکرین کی زمینی سالمیت کے لیے  خطرہ تشکیل دینے والے ایک سفاک آمر کے طور پر بیان کیا۔ تا ہم  یہ معیاری  موقف  اسرائیل کی غزہ پر   سفاکانہ  فوجی کاروائیوں  کے ساتھ مکمل طور پر  لڑکھڑا گیا۔

مغرب کی اصولی برتری کا زوال کوئی عبوری حقیقت   نہیں ہے اور اس کے اہم نتائج برآمد ہونے کا امکان ہے۔ سب سے اہم نتائج میں سے ایک معیاری   اصولوں سے محروم  کسی  نئے بین الاقوامی نظام کے بے قابو طریقے سے ظہور پذیر  ہونے کا احتمال ہے۔ دوسرا نتیجہ  مغربی اور  غیر مغربی دنیا کے درمیان   تفریق میں  مزید گہرائی آنے اور شناختی بنیاد وں پر  مشتمل  تصادم میں اضافہ ہونا ہے۔ جیسا کہ ہنٹنگٹن کا کہنا ہے یہ تہذیبوں کے تصادم کے طور پر نہیں  بلکہ مستقبل کے بین الاقوامی نظام کو تشکیل دینے والی شناختوں کے گہرے تصادم کے طور پر  منظر عام پر آ سکتا ہے۔ اس خطرے نے  7 اکتوبر سے ابتک  بالخصوص مغربی ممالک نے زور پکڑا  ہے۔  تیسرا  محتمل   نتیجہ مغرب کی  طرف سے تمام تر جنوبی کرہ ارض کو   اجنبی   کی حیثیت دینا ہے۔   جنوبی کرہ ارض  اسرائیل کی  وحشیانہ جارحیت کے بر خلاف  غزہ  کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔

چوتھا نتیجہ  روس اور چین کی موجودہ پالیسیوں کی ممکنہ مضبوطی ہے، جہاں  یہ دونوں اداکار اپنی معمول پر مبنی اقدار  کی بنیادپر ایک سماجی نظم قائم کر رہے ہیں۔ پانچواں امکان ہے کہ  مسلم  اُمہ  ایک غیر مغربی جغرافیائی سیاسی محور سے ہم آہنگ ہو جائے گی۔ شاید  7 اکتوبر کے بعد ظہور پذیر ہونے والے واقعات اور اسرائیل   کو تحفظ دینے والی  استثنائی   حیثیت  سب سے قوی امکانات ہونے والے نتائج میں شامل ہے۔

نتیجتاً، غزہ کے خلاف جارحیت میں اسرائیل کو دی گئی استثنائی  حیثیت مغرب کی نام نہاد اصولی برتری کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے اور مغرب کو اخلاقی اور سیاسی تباہی سے دوچار ہونے پر مجبور کرتی ہے۔



متعللقہ خبریں