تجزیہ 60

غزہ پر اسرائیلی حملے اور امریکہ اور مغربی ممالک کی اسرائیل کے حق میں پالیسیوں کا جائزہ

2053692
تجزیہ 60

غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو 18 دن مکمل  ہو چکے ہیں تو جنگ کے انسانی  پہلوؤں  میں بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی ایک کثیر تعداد  کی طرف سے اسرائیل کی اس کے  حملوں کی مہم میں کھلی حمایت نے اسرائیل کے اقدامات  کو  ایک لامحدود استثنائی  حیثیت دلادی   ہے۔ اجتماعی سزا کے طریقہ کار کو جنگی حکمت عملی کے طور پر اپنانے والا اسرائیل اور اس کی  لامحدود حمایت کرنے والا امریکہ علاقائی استحکام اور عالمی سلامتی کو ایک نئے تاریخی بحران میں جھونکنے کے درپے  ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سیاسی فضا بتدریج تبدیل ہو رہی ہے۔ خطے کے ممالک ابھی تک جنگ روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا سکے۔ بہت سے ممالک بیان بازی کی سطح سے عملی سطح تک جانے کی پوزیشن نہیں لے سکے۔ دوسری جانب ترکیہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف متوازن علاقائی سفارت کاری کر رہا ہے۔ اس لحاظ سے انقرہ جنگ کو روکنے اور بحران کے پھیلاؤ کو روکنے میں سب سے زیادہ سرگرم ممالک میں سے ایک ہے۔ حقیقت پسندانہ بنیادوں پر کام کرتے ہوئے، ترکیہ ایک ایسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو علاقائی مکالمے کے فعال استعمال اور انسانی نقطہ نظر کو ترجیح دیتی ہے۔

سیتا سیکیورٹی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل طاش کا مندرجہ بالا موضوع پر تجزیہ ۔۔۔

صدر ایردوان نے 7 اکتوبر  کو اپنے پہلے رد عمل میں فریقین کو اعتدال پسندی سے کام لینے کی دعوت دی  تھی اور جارحانہ موقف اپنانے سے گریز  کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس کے بعد، انہوں نے غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے  اس بات کا   دفاع کیا کہ مسئلے کا حل صرف 1967 کی سرحدوں پر  وضع کردہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام  کہ جس کا دارالحکومت مشرقی  القدس  ہو، اور جس کی علاقائی سالمیت کو یقینی بنایا جائے، کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ صدر ایردوان نے اپنی مصروفیات کا  ایک اہم حصہ دوسرے ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کے ساتھ سر انجام دیا۔ اس تناظر میں آپ نے اب تک 18 سربراہانِ مملکت کے ساتھ کئی بار  ٹیلی فون ڈپلومیسی کی ۔ انہوں نے ہر رابطے میں اس بات پر زور دیا کہ ان کی اولین  ترجیح انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے ایک انسانی راہداری قائم کرنے  اور اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کے  مطابق کاروائیاں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ خارجہ امور کے وزیر حاقان فیدان بھی وسیع پیمانے کی  سفارت کاری کر رہے ہیں۔ فیدان کا مقصد علاقائی سفارت کاری کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے جلد از جلد اسرائیل کی جنگی مہم کو روکنا ہے۔ اس تناظر میں ترکیہ، مصر، لبنان، سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، قطر، پاکستان اور ایران کے ساتھ  وسیع پیمانے کی  سفارت کاری کے ذریعے اسرائیل کی جارحیت کو محدود کرنے اور حقیقی معنوں میں  جنگ بندی کو یقینی بنا کر کسی حقیقی حل تلاش کرنے کی بھرپور کوششیں  صرف کر رہا ہے۔ فیدان کے مذاکرات  کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں  نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے حقیقت پسندانہ اور واضح زبان استعمال کی۔فیدان نے  زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک مسئلہ  فلسطین حل نہیں ہو جاتا اسرائیل مکمل طور پر محفوظ نہیں ہو سکتا، انہوں  نے اسرائیل کی قابض پوزیشن کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ۔ اس کے لیے1967 میں وضع کردہ سرحدوں پر ، اس کی علاقائی سالمیت کو یقینی بنانے والی اور مشرقی القدس  دارالحکومت ہونے والی مملکت ِ فلسطین کا قیام  خطے کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہ پہلے سے ہی فلسطین اسرائیل تنازعہ میں ترکیہ کی طرف سے اپنائی گئی  پوزیشن ہےاور بین الاقوامی قانون کے ذریعے ایک حل کے طور پر پیش  کردہ ریاستی  مؤقف  ہے۔

ترکیہ کی ثالثی کی سرگرمیاں سفارت کاری کا ایک اہم حصہ ہیں۔ پہلا مقصد حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی اور دیگر ممالک کے  شہریوں کی رہائی اور مذاکرات کے لیے مضبوط زمین  تیار کرنا ہے۔ حماس کے ساتھ ترکیہ کے مذاکراتی چینلز اور اس کے ماضی کے تجربات اسے اس ضمن میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا موقع  دیتے ہیں۔ ایک دوسرا معاملہ  جس کا تذکرہ فیدان نے بھی کیا ہے، ترکیہ کے ضامن کا کردار ادا کرنے کااحتمال ہے۔ترکیہ سمیت کثیر الجہتی ضامن میکانزم میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد  اس پر عمل درآمد کو برقرار رکھنے کی ضمانت شامل  ہے۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اس بحران سے علاقائی معمولات کے خاتمے کا خطرہ اور اس سے علاقائی سلامتی کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔ اسرائیل کے لیے امریکہ کی کھلی سیاسی و فوجی حمایت اور نام نہاد خطے کے ممالک کی عسکری کاروائیوں کا   سد باب کرنے  کے لیے اس کی فوجی طاقت کو خطے میں متحرک کرناجنگ  کےصرف غزہ تک محدود نہ رہ سکنے  کے  خطرے کو بڑھا رہاہے اور اس میں دیگر عناصر کے ملوث ہونے کے امکانات کو تقویت دلا رہا  ہے۔ اس طرح کے احتمال کا مطلب ترکیہ کے لیے ایک نیا علاقائی سلامتی  بحران ہے۔ لہذا ترکیہ کے لیے جنگ بندی کے قیام اور اسرائیلی حملوں کے خاتمے کو کہیں  زیادہ وسیع پیمانے پر علاقائی سلامتی کے ماحول کو غیر مستحکم ہونے کا سد باب کرنے کے ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

آخری نکتہ یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں سے ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان  جنگ سے قبل کافی اہم پیش رفت ہونے والا معمول پر آنے کے  عمل  کے خاتمے کا امکان ہے۔اگرچہ صدر ایردوان اس معاملے پر متوازن زبان استعمال کررہے ہیں اور ترکیہ کی ترجیح بحران کو ختم کرنا ہے تو بھی  اس بات کا امکان ہے کہ بحران کے گہرے ہونے اور اسرائیل کے تشدد میں اضافے سے معمول پر آنے کا عمل دوبارہ  ٹھپ ہو جائیگا۔ لہذا، ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کا عمل   ایک حقیقی  امتحان سے گزر رہا ہے۔ اس  مرحلے پر  معمولات کی بحالی کی بنیاد پر دوبارہ  سے سوالات اٹھ سکتے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد خطے کی فضا کس ڈگر پر آگے چلے گی ۔ اس سے قطع نظر، ترکیہ۔ اسرائیل تعلقات کے مستقبل کے بارے میں بات کرنا ممکن  دکھائی نہیں دیتا۔

اولین طور پر  7 اکتوبر کے بعد ترکیہ-اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کو نئی بنیادوں پر آگے بڑھانا  پڑے گا۔ کیونکہ 7 اکتوبر سے پہلے معمول پر آنے کی امیدیں  کافی بلند تھیں۔ نہ تو توانائی کا مسئلہ اور نہ ہی دیگر جغرافیائی سیاسی مسائل اپنے طور پر معمول پر لانے کے لیے کافی محرک عوامل تھے۔ دوسری بات یہ کہ ترکیہ۔ اسرائیل تعلقات میں کبھی بھی امریکہ اسرائیل تعلقات کی طرح اتحاد کا رشتہ نہیں رہا۔1990 کی دہائی میں تعلقات کے نام نہاد سنہری دور کا دوبارہ تجربہ کرنا ممکن نہیں لگتا تھا۔ تیسرا معاملہ یہ ہے کہ  دونوں ممالک میں خارجہ پالیسی کی عملیت پسندی کی اپنی حدود ہیں۔ کیونکہ ترکیہ کی اخلاقی عملیت پسندی اور اسرائیل کی لامحدود عملیت پسندی نے ایک اہم متحرک کے طور پر کام کیا جس نے دونوں ممالک کو زیادہ سے زیادہ سطح پر تعلقات برقرار رکھنے کے قابل بنایا اور مسئلہ فلسطین پر تعلقات کا گہرا ہونا ناممکن بنا دیا تھا۔ اس لیے ترکیہ کی خارجہ پالیسی کے لیے دونوں مسائل کو الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ آخر میں، یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر ترک معاشرے کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو  معمول پر لانے اورمسئلہ  فلسطین کے مسئلے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو وہ مسئلہ فلسطین کو ترجیح دیں گے۔یہ صدر ایردوان کی طرف سے ملحوظ ِ خاطر رکھنے  کا تقاضا ہونے والے محرکات میں سے ایک ہے۔

 ان تمام محرکات کو مدنظر رکھا جائے تو ترکیہ بحران کو مزید گہرا ہونے سے روکنے اور جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے خطے میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا  کرنے والےممالک میں سرِ فہرست  ہے۔بحران میں گہرائی  آنا اس وقت  ترکیہ۔ اسرائیل تعلقات  میں بحالی کے عمل کے  خاتمے کا امکان کو معدوم بنا  رہا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیلی حملے اور اس کے بعد کے حملے ترکیہ کی خارجہ پالیسی میں معمول کے وسیع تر عمل کو متاثر کرنے کی ماہیت  رکھتے ہیں۔ ان  کے مستقبل  کا دارو مدارمغربی ممالک کے  کس حد تک اسرائیل  کی پشت پناہی کرنے اور اسرائیل  کے انسانی  ساخت کی جنگ اور تصادم  کے اصولوں  کو کس حد تک نظر ِ انداز  کرنے کے مستقبل  پر ہے۔



متعللقہ خبریں