پاکستان ڈائری - پاکستانی صحافی

پاکستان میں صحافت کرنا آسان نہیں  ہمارے سامنے ہمارے بہت سے کولیگز ہم سے بچھڑ گئے جس میں زیادہ تر کو انصاف نہیں ملا

1982642
پاکستان ڈائری - پاکستانی صحافی

پاکستان ڈائری - پاکستانی صحافی

 

پاکستان میں صحافت کرنا آسان نہیں  ہمارے سامنے ہمارے بہت سے کولیگز ہم سے بچھڑ گئے جس میں زیادہ تر کو انصاف نہیں ملا۔ ارشد شریف، سلیم شہزاد، عبد الحق بلوچ، رزاق گل ،حاجی زئی،ملک ممتاز، محمود آفریدی، مرزا اقبال ، سیف الرحمان، اسلم درانی، ایوب خٹک ،عمران شیخ،مکرم خان ، عارف خان یا مصری خان، ولی خان بابر ہو یا عزیز میمن، موسی خیل ہوں یا چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان ہوں یا عامر نواب، راجہ اسد حمید ، فضل وہاب ہوں یا صلاح الدین، غلام رسول ہوں یا عبد الرزاق، محمد ابراہیم، ساجد تنولی ہوں یا شاہد سومرو یا لالہ حمید بلوچ ہوں یہ تمام سچ کی راہ میں شہید ہوئے۔ صحافی عروج اقبال اور شاہنہ شاہین دونوں کو انکے شوہروں نےقتل کیا یہ گھریلو تشدد کے نام پر ہوا ۔ صدف نے دوران ڈیوٹی جام شہادت نوش کیا۔

اتنا کچھ ہونے کے باوجود صحافی برادری متحد نہیں ہوئی انکو مارا جارہا ہے تنخواہیں وقت پر نہیں مل رہی کوئی لائف ہیلتھ انشورنس نہیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف میں لگے ہیں یا سیاسی جماعتوں اداروں کی سپورٹ میں لگے ہوتے ہیں لیکن اپنے ساتھیوں کے لئے آواز بلند نہیں کرتے۔ مصلحت ہے یا مجبوریاں لیکن اگر آج کوئی نشانے پر ہے تو کل دوسرا ہوگا۔ شہباز شریف کا دور صحافتی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ مجھے یاد ہے

نواز شریف اور ان کے خاندان نے ہمیشہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جب انکے دوسرے حکومت میں انکی لڑائی ایک بڑے میڈیا گروپ سے ہوئی تو انکا اخبار ایک صفحے پر چلا گیا میں اس وقت سکول میں تھی لیکن اخبار کا مطالعہ بہت شوق سے کرتی تھی مجھے بہت حیرت ہوئی کہ یہ سب کیا ہے کیونکہ مجھے لگتا تھا یہ سب آمر کرتے ہونگے کیونکہ ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ مرحوم ڈیکٹیڑضیا الحق کے دور میں تو سنسر شپ اتنی زیادہ تھی کہ صحافیوں کو کوڑے تک پڑے۔پر نواز شریف تو جموری لیڈر تھے۔ پر وقت کے ساتھ پتہ چلا جمہوری لیڈران کے اندر بھی آمر بستے ہیں۔

پرویز مشرف جوکہ آمر تھے انہوں نے اپنے دور حکومت میں پرائیوٹ میڈیا کو کام کرنےکی اجازت دی تاہم کچھ عرصے بعد وہ اس آزادی صحافت کو لے کر پریشان ہوگئے اور اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی۔انہوں نے صحافیوں کو پابند سلاسل کرنے کی کوشش کی ان کے شو بند کروادئے ۔پی پی پی کی حکومت آگئ پی پی پی کا دور میڈیا فرینڈلی تھا

اس کے بعد جب نواز شریف کا تیسرا دور حکومت شروع ہوا تو میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا بھی متحرک ہوگیا اداروں اور پولٹیکل پارٹیز نے اپنی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی سوشل میڈیا ٹیمز قائم کرلی اور صحافی حکومتی دباو کے ساتھ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا شکار ہوگئے۔نواز شریف نے اپنے تیسرے دور میں ناصرف من پسند صحافیوں کا ناصرف ٹکٹ دئے بلکے انکو عہدوں سے بھی نوازا گیا۔

عمران خان سوشل میڈیا اور میڈیا کو اپنی قوت قراردیتے تھے۔عوام کو بھی لگا کہ تبدیلی آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔سب سے پہلے تو صحافی معاشی طور پر بدحال ہوگئے، بہت سے بیروزگار ہوگئے، ایسے جو تحریک انصاف پر تنقید کرتے تھے ان کی بھی نوکریاں ختم ہوگئ۔

پر شہباز شریف کی حکومت نے تو آمریت ظلم کی انتہا کردی۔ صحافیوں پر پرچے تشدد ہوئے عمران ریاض سمیع ابراہیم جمیل فاروقی شاہد اسلم معید پیرزادہ صابر شاکر شفا یوسفزئی صدیق جان کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایاگیا یہاں تک کہ معروف صحافی ارشد شریف کو قتل کردیا گیا صحافتی برادری پھر بھی متحد نہیں ہوئی۔

 



متعللقہ خبریں