تجزیہ 15

ولی عہد پرنس محمد بن زاید  کا  دورہ ترکی اور صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کے ممکنہ نتائج پر جائزہ

1745863
تجزیہ 15

ہم اس وقت مشرق وسطی میں بین الاحکومتی  کشیدگی میں گراوٹ آنے اور نسبتاً  پر سکون ماحول  کے حامل  ایک دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد پرنس محمد بن زاید  کا  دورہ ترکی اور صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات اس سلسلے کا اہم ترین مظہر ہے۔ ترکی کے  سعودی عرب اور مصر کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات ایران کے ساتھ بھی  اسی سے ملتے جلتے   ماحول کے قیام کی کوششوں میں ہے، آیا کہ حالات کو معمول پر لانے کی یہ کوششیں کامیاب ہوں گی یا نہیں؟

سیتا خارجہ پالیسی تحقیق  دان جان اجون کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ پیشِ خدمت ہے۔۔

 متحدہ  عرب امارات  کے ولی عہد محمد بن زاید   کا دورہ انقرہ  اور متعدد معاہدوں پر دستخط کرنا حتی 10 ارب ڈالر کی ترکی میں سرمایہ کاری کا اعلان کرنا  مشرق وسطی  میں نئے ’توازن‘ کے قیام کی جستجو کا ایک اہم مظہر ثابت ہوئی ہے۔ حالیہ ایام میں تقریباً تمام تر علاقائی ادا کار جھڑپوں کی سوچ کے بجائے ڈائیلاگ اور مصالحت قائم کرنے کے متلاشی دکھائی  دے رہے ہیں۔  یو اے ای نہ صرف ترکی بلکہ ایران کے ساتھ بھی   ترکی کے مشابہہ مؤقف کا مظاہرہ کر رہا ہے۔  ترکی کی جانب نظریں دوڑائیں تو یہ  حالیہ ایام میں سعودی عرب، مصر اور اسرائیل کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کو  معمول کی سطح پر لانے  کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔

خطے میں کیا چیز رونما ہوئی ہے کہ تمام تر اداکار اپنی اپنی پوزیشن بدلنے کے  لیے   رضامندی کا اظہار کر رہے ہیں؟

اس صورتحال کو بیان کرنے کے  لیے چند عوامل  پیش پیش  آتے ہیں۔ پہلی چیز بائڈن  کے دور میں  مذکورہ خطے  میں امریکی پالیسیوں سے تعلق رکھتی ہے۔  متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اب بلا مشروط امریکی  تعاون  حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ حتی افغانستان کی پیش رفت اور امریکہ  کا مشرق وسطی سے قدم بہ قدم انخلا ان ممالک کو  سنجیدہ سطح پر  خدشات سے دو چار کر رہا ہے۔ لہذا  یہ  ترکی اور ایران  کی طرح کے ممالک کے برخلاف اپنی سخت گیر پوزیشن اور پالیسیوں  پر نظر ِ ثانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔  دوسرا پہلو یہ ہے کہ بہارِ عرب اور عوامی تحریکیں  اب ماضی کی گہما گہمی  کو کھو چکی ہیں۔ خلیجی ممالک اور مصر کے منتظمین  کو اس وقت اپنی بقا کا خطرہ  محسوس نہیں ہورہا ۔ لہذا  ن تحریکوں کے حامی  اور  رول ماڈل  کی نگاہ سے دیکھے جانے والے ترکی  کو یہ ایک   سنگین سطح کے خطرے  کے طور پر تصور نہیں  کرتے۔ تیسرا پہلو  علاقائی تصادم اور پراکسی وارز میں  کسی  بھی ملک کے غلبہ حاصل نہ کرسکنے  کا اندازہ کیا جانا اور  اہم سطح پر نقصان  ۔ نقصان کا سامنا کرنے کی سوچ  پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں اقتصادی طور پر  اس کشمکش کے ہرجانے   میں ہر گزرتے دن  اضافہ  بھی  ممالک کو اپنے لائحہ عمل کو تبدیل کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

یہ تمام تر عوامل علاقائی  ممالک کو  کسی نئے  معمول  کی تلاش کرنے   پر مجبور کر رہے ہیں۔ تا ہم ، موجودہ حالات اور پیش رفت کے مطابق  مشرق وسطی  میں  فی الحال حالات کے معمول پر آنے کا ذکرکرنا قبل از وقت  ہو گا۔  شام اور یمن سے لیکر  لیبیا   تک  کے متعدد جھڑپوں کے مقامات اپنی موجودہ  حیثیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔  اور  خطے کے ممالک  کی حقیقت پسندانہ  فطرت  اور  اداراتی  ڈھانچوں کی کمزوری کسی ممکنہ عالمی تبدیلیوں  خاصکر امریکہ  کی کاروائیوں کے طرز میں تبدیلیاں  غیر یقینی کی صورتحال  کو پیدا کرنے کےماحول  کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔



متعللقہ خبریں