اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب03

چاتال ہویوک کا تاریخ ساز شہر

1602401
اناطولیہ کی ابتدائی تہذیب03

اٹھارویں صدی کے اواخر میں  اسپین  کے کچھ  غاروں میں بعض  شبیہات پائی گئیں  جنہیں دیکھ کر انسان حیرت میں پڑ گیا۔ خیال ہے کہ یہ شبیہات  لاکھوں سال پرانی ہو سکتی ہیں مگر انہیں اتنی مہارت سے کندہ کیا گیا ہے  کہ  حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی  اور  جس شخص نے اس غار کو دریافت کیا اسے  جعل سازی  کے الزام میںگرفتار کر لیا جاتا ہےکہ وہ شبیہات اس نے بنائی ہیں۔ مگر کیا ہوتا ہے کہ بعد میں اسی طرز پر  دنیا کے مختلف علاقوں میں  موجود غاروں سے اسی سے مشابہہ بعض شبیہات ملتی ہیں جس پر ان  شبیہات کے حقیقی ہونے کی تصدیق ہو جاتی ہے۔کاربن  تجزیئے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ شبیہات  چالیس ہزار سال قبل کندہ کی گئیں تھی، اس کے علاوہ ان غاروں کی دیواروں پر بعض  دستی نشانات بھی موجود ہیں جنہیں ماہرین نے فن مصوری کی ابتدا کہا ہے۔یہ تمام شبیہات دور حاضر کی جدید فن مصوری سے میل تو نہیں کھاتیں البتہ ،ان کی کندہ کاری میں شامل مہارت اور رنگوں کا استعمال کافی مکمل نظر آتا ہے۔ یہ اس دور کی علامت رہیں جب انسان زبان سے نہیں بلکہ اشاروں اور آوازوں کی لے پراپنے تاثرات کا اظہار کرتا تھا۔انسان اس دور میں  وحشی جانوروں سے خود کو بچانے، قدرتی آفات  کے خوف اور دیگر بیماریوں سے بچنے کے لیے ایسی شبیہات کو دیواروں پر  کندہ کرتا رہا ہے۔
غاروں سے نکل کر انسان پھر کھلے مقامات پر آکر آباد ہونے لگا، اس نے پہلے برتن بنائے بعد میں انہیں سجایا ، وقت کے ساتھ ساتھ انسان  نے مٹی کو ٘مختلف روپ دینا شروع کر دیئے اور ان سے مجسے بنائے جن کا شمار موجودہ دور میں تاریخی آثار کے طور پر ہوتا ہے۔اناطولیہ میں  اسی طرح کا ایک تاریخی مقام ہے جسے چاتال ہویوک کہا جاتاہے جہاں سے ملنے والی شبیہات او رمجسموں نے تاریخ کے اوراق پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔آج ہم آپ کو اسی چاتال یوہوک کے بارے میں بتائیں گے۔

اناطولیہ انسانی حیات کے طویل افسانوں  کی داستان رقم کرنے کا گواہ رہاہے جو کہ ہمیں وہاں سے بازیافت ہوئےآثار قدیمہ کے نتیجے میں   تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں ۔ ان داستانوں کے دوکردار ہیں جن میں  ہویوک اور تومولس اقوام شامل تھیں۔ ہویوک قوم کی خاصیت تھی کہ اس کی تہذیب کے آثار ایک دوسرے پر تعمیر کیے گئے تھے یعنی ایک شہر  آباد ہو کر برباد ہوا وہیں دوبارہ ایک نیا شہر  ہویوک قوم آباد کر دیتی تھی۔ اسی وجہ سے ہمیں یہاں کھدائی کے نتیجے میں تہہ در تہہ تواریخ کے آثار ملے ہیں  جو کہ ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ وہی تاریخ ہے جہاں سے ہویوک قوم  کی تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔
تومولوس قوم ہویوک سے مختلف تھی  جن کے یہاں شاہ یا شہزادے یا کسی گورنر  سے مشابہہ شخصیات کے لیے  یادگاری مزار بنوائے جاتے تھے۔

نیو لیٹیک دور میں انسان شکار کرنے کو اپنا مشغلہ اپناتا رہا بعد ازاں  اس نے زراعت کی شعبہ  اختیار کیا ،جانوروں کو پالتو بنانا شروع کیا اور اس طرح سے دیہاتوں  ،قصبوں اور بعد میں شہروں کا تصور وجود میں آیا۔ آثار کی بازیابی سے عالمی محققیین کی  توجہ اپنی جانب کرنے والے چاتال ہویوک  نیو لیتیک دور کے ابتدائی شہروں میں سے ایک تھا  جہاں  کی فن معماری ،فنون لطیفہ  اور دیگر موضوعات کافی  دلچسپ معلومات کا وسیلہ رہے ہیں۔اناطولیہ  کے جغرافیئے کی ہزار ہا سال تاریخ  کا یہ شہر اہم گہوارہ رہا ہے۔ چاتال ہویوک کے مکانوں کا راستہ گلیوں سے نہیں بلکہ چھتوںسے ملتا تھا،چاتال ہویوک کی تہذیب اناطولیہ اور مشرق وسطی میں نیو لیٹیک دور کی میراث رہاہے جہاں کی  پیچیدہ معماری، اکثریت آبادی اور فنی شہ پارے اور ان کا تخلیقی فن اور روایات انسانی تاریخ   کی ترجمان رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاتال ہویوک یونیسکو کی عالمی ثقافتی  ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔
 چاتال ہویوک  نیو لیٹیک شہر وسطی اناطولیہ کے ضلع قونیہ کے قصبے چمرا میں واقع ہے جو کہ اپنے وقت کا سب  سے گنجان آباد شہر  ہوا کرتا تھا اس نو ہزار سالہ پرانے  شہر میں  اس وقت آٹھ ہزار لوگ بستے تھے جو کہ کافی گنجان آبادی تھ


چاتال ہویوک مشرقی و مغربی ٹیلوں پر مشتمل تھا، مشرقی ٹیلوں پر آباد شہر کی تہیں اٹھارہ تھیں جہاں سے مختلف دیواروں  پر شبیہات اور مجسمے دریافت ہوئے ہیں۔ اسی سال بعدایک کنبے کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسی گھر پر مٹی ڈالتے ہوئے دوبارہ سےاٹھارہ مختلف تعمیرات کے آثار  ملتے ہیںکالکولیٹیک دور یعنی  پیتل کے دور میں  کہا جاتا ہے کہ انسانوں نے مشرقی ہویوک سے مغربی ہویوک یعنی ٹیلوں کی جانب  کوچ گیا جو کہ ہجرت نہیں بلکہ ایک نقل مکانی تھی  مگر اس کی وجہ کیا تھی یہ ماہرین پتہ لگانے سے قاصر رہے ہیں البتہ ان کا خیال ہے کہ اس کی وجہ کوئی وبا یا آفت ہو سکتی ہے۔
چاتال ہویوک میں  مکانوں کی تعمیر ایک دوسرے کے کافی قریب واقع تھی جس کی وجہ سے وہاں گلیوں کا تصور نہیں ہوتا تھا اور لوگ چھتوں کو راستے کا ذریعہ بناتے تھے۔اس وقت لوگ چھتو ں پر  گھومتے رہتے تھے ،اس دور کے گھر چونے،درختوں اور بانسوں سے بنائے جاتے تھے جو کہ ایک منزلہ ہوا کرتے تھے جن کے دروازے بھی  چھت پر تھے جہاں  سیڑھیوں سے پہنچا جاتا تھا۔ ہر گھر میں ایک کمرہ ہو تاتھا جس میں ایک  پلیٹ فارم اور ایک گودام ضرور موجود ہوا کرتا تھا۔ گھر کے بڑے کمرے میں کھانا پکتا تھا اور انسان اس  اونچے پلیٹ فارم پر سوتے تھے۔اس پلیٹ فارم  کے استعمال ایک اور  طریقہ یہ بھی تھا کہ مقامی آبادی مرنے والوں کو اس پلیٹ فارم کے نیچے دفن کیا کرتی تھی ۔
سفید رنگ کے حامل کمروں کی دیواروں پر سرخ،زرد یا سیاہ رنگوں کی حامل بعض تصاویر بھی موجود ہوا کرتی تھی جن میں  شکار کے مناظر، ستارے،پرندے،ہرن،چیتے اور عجیب و غریب جیو میٹری اشکال نظر آتی ہیں۔ ان مکانوں میں سے ایک کی دیوار پر تین میٹر طویل اور نوے سینٹی میٹر اونچا ایک آٹھ ہزار  دو سوسال پرانا نقشہ بھی ہے جو کہ اس شہر کا پلان بتایا جاتا ہے۔یہ نقشہ اس وقت انقرہ کے اناطولیہ  عجائب خانے میں محفوظ ہے جسے دنیا کے پہلے شہری آباد کاری کے پلان کا درجہ حاصل ہے۔

 چاتال ہویوک کی تہذیب ہمیں اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ نو ہزار سال قبل مرد و عورت مساوی حقوق کے حامل ہوا کرتے تھے۔ شہر میں مختلف سرکاری عمارتوں، محلات،معبد اور کسی قسم کی یادگاری  تعمیرات کا نشان نہیں ہےجس کا مطلب ہے کہ یہاں صنفی مساوات یکساں تھیں۔
یہاں کی جانے والی کھدائی کے دوران کافی تعداد میں مجمسے بھی ملے ہیں جن میں چیتوں اور بھینسوں سمیت مختلف جانوروں کی شبیہات شامل ہیں،البتہ چاتال ہویوک کا سب سے مشہور مجسمہ برکت و افزائش نسل کا حامل دیوی کا مجسمہ ہے جو کہ اس دور  کی عمر رسیدہ خواتین کے احترام  میں بنایا گیا ہوگا۔
 اس کے علاوہ یہاں  کی کھدائی سے کپڑا بننے  کے آلات، برتن، لکڑی سے بنی رکابیاں،پیالے،پتھروں اور ہڈیوں  سے بنے آلات،ٹوکریاں اور دیگر زیبائشی اشیا اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ یہاں کی آبادی صرف زراعت یا مویشی بانی نہی بلکہ  کپڑا بننے اور معدنی کارسازی میں بھی مہارت رکھتی تھی ۔

 چاتال ہویوک کی نو ہزار سال پرانی طرز زندگی  انسانی معاشرے کی بہترین عکاسی  کرتی نظر آتی ہے۔ چاتال ہویوک   انسانی تاریخ کا ایک کلیدی  اور لاثانی  مقام ہے 



متعللقہ خبریں