لب آب سے آئی تہذیب

اورارت قوم اور وان جھیل

1508271
لب آب سے آئی تہذیب

کوہساروں اور چٹیل چٹانوں میں گھرے علاقے کو  فرماں روا دیکھتا ہے، وہ ایک عجیب سے سوچ اور گہرائی میں ڈوبےاپنے سامنے  پانی کے ایک وافر ذخیرے کی جانب نظر ڈالتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ سمندر ہے یا ایک جھیل ہے کیونکہ حد نظر پانی ہی پانی دکھائی پڑتا ہے۔ فرماں روا  سوچتا ہے آخر کو یہ پانی ان کوہسارون  اور بنجر زمینوں  کے لیے بے کار ہو رہا ہے۔ بالاخر فرماں روا  اپنے ذہن کو جھٹکتے ہوئے کہتا ہے کہ  پانی ہے تو زندگی ہے پانی ہر شہ ہے جس سے ہر چیز ممکن ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی رعایا کے ساتھ  یہاں آباد ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔

 

مشرقی ترکی میں جغرافیائی ساخت اور ماحول سخت آب و ہوا کے زیر سایہ ہے جس کا اثر فرماں روا پر نہیں پڑتا اور وہ اس پانی کے کنارے پہلی صدی قبل مسیح میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے۔وان ترکی کی  سب سے بڑی جھیل ہے  جو کہ بیک وقت دنیا کی  سب سےبڑی سوڈا ملی جھیل کا اعزاز بھی رکھتی ہے جس کے قریب قاءم ہوئی یہ تہذیب اورارت کی تھی۔یہ قوم اپنی ثقافت، معماری اور  فنون لطیفہ کے باعث اناطولیہ اور عالمی ورثے میں اہم حیثیت کی حامل رہی ہے۔

اورارت ریاست کا صدر مقام  تسپا تھا جسے دور حاضر میں وان کہا جاتا ہے۔  یہ شہر وان جھیل کے اطراف میں بسایا گیا جہاں دو سو سال تک اس قوم نے حکومت  کی اور اپنے فن معماری اور آہن سازی سے نام کمایا۔ اس قوم  کو علاقے کی آب و ہوا نے متاثر نہیں کیا  ۔

کھدائی کے نتیجے میں اورارت  سلطنت نے بالخصوص پانی  پر بنائی گئیں تعمیرات کو اہمیت دی تھی جس کے نتیجے میں وہاں  ساٹھ عدد بند،نہریں اور آب پاشی کی کینالیں سامنے آئی۔ اتنی کثیر تعداد میں اس دور سے وابستہ اس قسم کی تعمیرات کا ملنا کافی دلچسپ اور حیران کن تھا۔ان کی مثال اور کہیں نہیں ملتی ایک دیگر خاصیت  بیراجوں  اور دیگر پانی کے لیے بنائی گئی تعمیرات پر کندہ تحاریر تھیں جنہیں  شاہ وقت تحریر کرتےہوئے   زراعت اور آبپاشی کے لیے استعمال کے طریقے بتاتا رہتا تھا۔ مشرقی اناطولیہ مین زرعی آب پاشی کا نظام اسی قوم کی بدولت متعارف ہوا  بعد کے ادوار یعنی پارس، ہیلن،بازنطینی اور عثمانی میں اس قدیم دور کے طریقہ کار سے متاثر ہوتے ہوئے اسے مزید فروغ دیا گیا ۔

 پانی پر بنی تعمیرات کے حوالے سے ماہرین نے اس علاقے کو ہائیڈرولک تہذیب بھی کہا ہے جہاں ماحولیاتی صعوبتوں کے باوجود  اس قوم نے    تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی اور اپنا نام تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھوایا ۔دور حاضر میں بھی اس تہذیب کے کچھ آثار زیر استعمال ہیں جن میں بعض بیراج اور کینالیں شامل ہیں جو کہ دو ہزار سات سو سالوں سے  استعمال ہوتی آ رہی ہیں۔اورارت قوم کے اس بے مثال فن معماری کا کیا کہنا جو کہ متعدد آفات اور زلزلوں کے باوجود  آج بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہیں۔ان میں سے ایک  کینال ایسی ہے جو کہ پچاس کلومیٹر طویل جس کانام مانوا کینال ہے ۔اسے دنیا کے بہترین فن معماری میں شمار کیا جاتا ہے۔ دور حاضر میں ایک دیگر کینال جس کا نام سمران ہے آسور سلطنت کی ملکہ سمیرا مس کے نام سے منسوب  ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ  بدل کر سمران ہو گیا البتہ اس  بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ۔

اورارت قوم کی ایک اور بہترین مثالی تعمیر کسیش غول بیراج ہے جس کی مضبوطی سے بیشتر انیجینئروں کو دم بخود کر رکھا ہے۔ ان کے مطابق یہ  بیراج نہروں اور آب پاشی کینالوں  کے بہترین نظام کا نمونہ ہے جس کا اناطولیہ میں پایاجانا حیرت سے کم نہیں۔

اورارتی فرماں رواوں  کی ان تعمیرات کی بدولت علاقے میں زراعت اور مویشی بانی کو فروغ ملا۔متعدد کھدائیوں میں ایسے  بڑےبرتن بھی ملے ہیں جو کہ کھانےپینے کےلیے استعمال ہوتے تھے اور جن میں اناج یعنی گندم  اور جو ،انگور اور تل وغیرہ محفوظ بھی رکھے جاتے تھے۔یہ تلاش اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہ قوم زرعی شعبے میں کافی جدت پسند تھی ۔

اس قوم کا ذکر ہوتے وقت  ان کے فن تعمیرات کے علاوہ آہن سازی کا شعبہ بھی زیر  بحث ہے جنہوں نے    آہن اور سنگ سازی میں بھی اپنا  سکہ منوایا ۔یہ علاقہ پیتل اور لوہے سے فراواں ہے جہاں کی جانے والی کھدائی سے  اس قوم سے وابستہ معدنی زیورات،اشیا اور زرعی آلات بازیاب ہوئے ہیں جنہیں یہ  تجارتی لحاظ سے بھی  فروخت کرتی تھی ۔

پروگرام کے آغاز میں جیسا ہم نے بتایا کہ  اس علاقے  کی موسمیاتی کیفیت سخت تھی جس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اورارت قوم نے  معماری کا ایک مخصوص انداز اختیار کیا  بسائے شہر ،قلعے اور  بیراج  اس کی زندہ مثال ہیں۔

 اس قوم نے ہر شہر کے قیام میں ایک منصوبہ تیار کیا تھا جس کی بدولت انہوں نے اراضی کو اپنی خواہشات  اور ضروریات کے مطابق شکل دی۔ان کی تعمیر کردہ عمارتیں ڈھلانوں پر قائم تھیں جو کہ کسی قلعے سے دیکھتےہوئے اہرام  کا منظر پیش کرتی  تھیں جو کہ دفاعی لحاظ سے بھی با کمال تھیں۔

 اورارت  کی ریاست نے وان جھیل کے اطراف میں ہزاروں افراد کی رہائش ممکن بنانے کے لیےخصوصی منصوبہ تیار کیا۔ تسپا اپنے دور کے گنجان آباد شہروں میں شامل تھا۔شہری منصوبہ بندی،وسیع گلیاں اس کا حصہ تھیں جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو آباد ہونے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنے نہیں ہوتا تھا۔جنگوں میں  زیر قبضہ علاقوں میں بھی یہ قوم  اسی طرح کی بستیاں قائم کرتی رہی جنہوں نے شہری آباد کاری کو زرعی  لحاظ سے قائم کرنا  ملحوظ خاطر رکھا۔یہ تمام عوامل  اس قوم کی فن تعمیر اور  ذہانت و فراست کا منہ بولتا ثبوت ہے جو کہ آج بھی ہمیں نظر آتا ہے۔

اپنی بے نظیر تہذیب کے بل بوتے پر  اورارت قوم   آب پاشی کے نظام میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے جنہوں نے اپنے وقت سے کہیں آگے کی  ایک ٹیکنالوجی متعارف کروائی جو کہ آج  بھی ہمیں حیران کرنے کےلیے کافی ہے۔

 

 

     

 



متعللقہ خبریں