لبِ آب سے آئی تہذیب

حطیطی قوم اور اس کا پس منطر

1503183
لبِ آب سے آئی تہذیب

قزل ارماک کا شمار وسطی اناطولیہ کے  با برکت اور زرخیزی کے سر چشمے کے  طور پر ہوتا ہے۔  قزل ارماک ترکی کا طویل ترین دریاہےجس کا رقبہ پچھتر ہزار مربع کلو میٹر ہے، یہ دریا  سنینکڑوں جانداروں کی میزبانی و افزائش کا وسیلہ بنتےہوئے  ترکی کے قدرتی نظام میں مددگار بھی ہے۔ اس دریا پر نہ جانے کتنے لوک گیت اور قصیدے لکھے جا چکے ہیں۔ اس دریا پر بنے پل اور   اس کے کنارےدیگر قدیم مقامات ہمیں آج بھی تاریخ کا پتہ دیتے ہیں۔
قزل ارماک قدیم زمانے  سے اناطولیہ میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ دریا جنگوں ،آبادیوں  ،تجارتی راستوں اور ریاستی حدودکے تعین کا مرکز بھی رہا، ابتدائی تاریخ کے اہم  مورخ ہیریدوت اوراس  ماہر جغرافیہ اسٹرابون نے ایشیائے کوچک کی حدود کا تعین اسی دریا  کے حوالے سے کیا  کیونکہ سیاسی حدود کی  اصطلاح اس  زمانے میں نہیں تھی لہذا اس کے لیےکوہساروں ،بہتے پانیوں اور سمندروں کا سہار الیا جاتا تھا۔
اس دریا کو یہ نام  اس  کی سرخ مٹی کے باعث دیا گیا ہے۔ ترکی زبان میں قزل کے معنی سرخ اور ارماک کے بہتے پانی کے ہیں  حتی حطیطیوں نے بھی اسے اپنی زبان میں اسی نام سے پکارا۔

بابیل قوم  کے زمانے میں حطیطی تہذیب کی بنیاد پڑی جنہوں نے تاریخ پر گہرے اثرات نقش کیے۔حطیطیوں  کے ذہن میں آتے ہی ان کی ایجادات و کارنامے  گونجنے لگتے ہیں جن میں کادیش معاہدہ سر فہرست ہے۔ یہ معاہدہ تاریخ کے قدیم ترین تحریری معاہدے کے طور پر رقم ہے جو کہ مصریوں اور حطیطیوں کے درمیان صلح کا  سبب بنا تھا۔اس معاہدے کی ایک دیگر نقل مصر کے ایک معبد کی دیواروں پر کندہ ہے۔اس معاہدے کی دریافت سن انیس سو چھ میں کھدائی کے دوران  سامنے آئی جو کہ آج استنبول کے آثار قدیمہ عجائب خانے میں محفوظ ہے ۔جدید سفارتی کوششوں میں اس معاہدے کو بنیاد کی  اہمیت حاصل ہے جس  کی نقل نیو یارک میں واقع اقوام متحدہ  کے مرکزی دفتر کے داخلی دروازے پر موجود ہے۔


اس معاہدے کیدریافت بوعاز کوئے نامی علاقے میں ہوئی جو کہ حطیطیوں کا صدر مقام تھااس دور میں اسے حط طشا کہا جاتا تھا جو کہ قزل ارماک کے کنارے آباد تھا۔یہ اناطولیہ میں پہلا صدر مقام بھی تھا  جو ضلع چوروم کے جنوب مغرب میں واقع تھا۔قدم حط طشا کا یہ شہر  ترکی کے اہم ترین آثار قدیمہ میں شمار ہوتا ہے،یہاں کی گئی کھدائیوں کے نتیجے میں پانچ قدیم تورایخ و تہاذیب کا پتہ چلا جن میں حطی،حطیطی،آسور،گلات،فریگیا،روم اور بازنطینی شامل ہیں۔حط طشا کا قدیم شہر اپنی تاریخی اور تہذیبی لحاظ سے یونیسکو کی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔جسے شہر ہزار ہاخداوندی بھی کہا جاتا رہا ہے۔
اب  اس شہر کے بارے میں جانتے ہیں ، حط طشا بالائی اور زیرین دو حصوں میں تقسیم ہے۔ بالائی حصے میں معبد اور دیگر مذہبی مقامات جبکہ زیریں حصے میں معبد کبیر،مکانات اور دیگر امور کار ہائے زندگی سے وابستہ مقام واقع ہیں۔حطیطیوں  نے اس شہر کو چھ کلومیٹر طویل حصار سے گھیر رکھا تھاجس کے احاطے میں  پرانا شہر، اناج کے ذخیرے کے لیے گودام،کھلی ہوا کا ایک معبد ،محل،معبد خانے اور زیریں راستے شامل تھے ۔اس شہر کی  سیر کرتے وقت آپ خود کو اس دور میں سفر پر محسوس کرتے ہیں  جہاں حطیطیوں کی  بے مثال سنگ تراشی  و سازی کے نمونے نظر آتے ہیں۔حطیطیوں کی اس فن معماری میں  پتھروں کے استعمال کو اناطولیہ میں رواج کا حصہ بنایا گیا۔

اب اس شہر کی بانی حطیطی قوم کا پتہ کرتے ہین جو کہ اناطولیہ کی  قدیم ترین ثقافت و تہذیب میں سے ایک تھی۔حطیطی ریاست اپنے وقت میں جنگی،ثقافتی،عسکری اور تجارتی لحاظ سے مضبوط ترین ریاست تھی جنہیں فولاد سازی  اور اسے شکل دینے کا ہنر بھی خوب آتا تھا۔اسی وجہ سے ان کی فوج اس دور کی طاقت ور ترین فوج تھی،اس قوم نے حقوق نسواں کو بھی فروغ دیا  جبکہ فنون لطیفہ اور دیگر فن معماری میں ان کی ہنر مندی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
کھدائیوں کے نتیجے میں جو سامان ہمیں ملا اس سے معلوم ہوا کہ یہ تہذیب کافیجدت پسندی کی قائل تھی   جس کا ثبوت عطر سازی ،سرامیک اور رنگ سازی جیسے شعبوں میں مہارت  کا ہمیں ملتا ہے۔
سیاسی لحاظ سے بھی اس قوم کا تخلیقی نظام قابل غور ہے جس میں پانکس یعنی شاہی مجلس کے قیام کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ ریاست میں شاہی خاندان کے افراد خواہ نظام حکومت چلانے کے اہل کیوں کر نہ ہوں انہیں  شاہی مجلس کے فیصلوں کے تحت اس کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوتی تھی ۔مساوی حقوق کے حامل ارکان اپنے نظریات بلا کسی تردد سامنے رکھتے تھے جس پر فرماں روا  غور کرتا تھا۔یعنی دور جدید میں برطانیہ،اسپین،ہالینڈ اور جاپان سمیت کئی ممالک میں شاہی پارلیمانی نظام کی داغ بیل اسی بنیاد پر رکھی  گئی ہے۔
خیال ہے کہ حطیطی قوم قفقاز کے راستے اناطولیہ میں آکر آبا ہوئی تھی مگر اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔کندہ عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ  ان کی زبان یورپ زبانوں کے الفاظ سے مماثلت رکھتی تھی جس کی وجہ سے حطیطی زبان کو قدیم  ہند ۔یورپی زبان  قبول کیا جاتا ہے۔
 یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ حطیطی قوم تاریخ کے کس دور میں سامنے آئی اور کب اس کا زوال ہوا لیکن  کہا جاتا ہے کہ اناطولیہ میں یونانی اقوام کی ہجرت کے بعد ان کے زوال کی وجہ بحیرہ روم سے آئےقزاقوں کے ہاتھوں ہوئی۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ یکے بعد دیگرے پیدا ہوئی خشک سالیون نے اس تہذیب کاخاتمہ کر دیا  ہو۔

یونسیکو کی دو فہرستوں میں سے ایک میں شامل حط طشا کے بارے میں آج ہم نے ذکر کیا،اس پانچ ہزار سالہ تاریخ کےبانی حطیطیوں پر کہنے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔
 صدائے ترکی سے آپ نے نسلی خان دیعر منجی اولو کا تیار کردہ یہ پروگرام سنا ۔
آئندہ ہفتے تک کےلیے اجازت 

 

 



متعللقہ خبریں