تجزیہ 36 (ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کیا ثقافت کی بھی خرید ممکن ہے؟)

ٹیکنالوجی اور ثقافت کے درمیانح تعلق اور مغربی ٹیکنالوجی کے مسلمان طبقے پر اثرات

1263788
تجزیہ 36 (ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کیا ثقافت کی بھی خرید ممکن ہے؟)

 

ترکی اور عالمِ اسلام میں تہذیب، ثقافت، ٹیکنالوجی کی طرح کے نظریات اور ان نظریات  سے کس  طریقے سے قربت پیدا کیے  جانے پر گزشتہ دو صدیوں سے بحث ہو رہی ہے۔ٹیکنالوجی کے  موضوع پر بحث و مباحثہ حالیہ ایام میں زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی  محض ٹیکنالوجی ہی نہیں ہوتی، ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ثقافت سمیت کئی ایک ناخواہش کردہ عوامل  کی بھی  معاشرے میں منتقلی ہو جاتی ہے، اس بنا پر ٹیکنالوجی سے دور رہنے کے نظریات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔

  انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔

ہمیں مغرب سے کیا لینا چاہیے؟

اولین طور پر  ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ یہ بحث نئی  اور صرف ٹیکنالوجی  تک محدود نہیں ہے۔در اصل یہ بحث مغرب سے کیا لینے یا نہ لینے  پر بحث کا دوام ہے۔اس موضوع   پرعہدِ عثمانیہ کے آخری ایام میں مالی  پیش رفت۔ اخلاقی پیش رفت، تہذیبی حرص، حقیقی تہذیب۔ صنعتی تہذیب  کی طرح کے نظریات  پر مختلف مصنفین نے جامع طور پر بحث چھیڑی تھی۔

اس بحث کے فریم کا مہمت عاکف ایرسوئے کے مندرجہ ذیل اشعار    لب لباب پیش کرتے ہیں۔

"حاصل کریں علم وفنون کو

ڈٹ کر محنت کریں اس کے حصول میں

کیونکہ ان کے بغیر زندگی نا ممکن بنتی جا رہی ہے

کیونکہ علم و فنون کی کوئی قومیت نہیں ہوتی"

عہدِ دستوری  کے بعض ترک پسند مفکرین ، خاصکر اسلام پسند مفکرین کے موقف کاخلاصہ کچھ یوں ہے؟ مغربی علم کو حاصل کرو تا ہم اس کی اخلاقی اقدار اورثقافت سے پرہیز کرو۔  (اس موضوع پر میرے نظریات سے آگاہی کے لیے "مغرب سے متعلق خصوصیت کا تعین" نامی مقالے  کا مطالعہ کیجیے۔)بعدازاں عاکف اور دیگر  عالمین پر  مغرب کو صحیح طریقے سے نہ پڑھ سکنے  پر نکتہ  چینی کی گئی  تھی۔  لیکن میں  عاکف سے نا انصافی کیے جانے  کی سوچ کے حامل مصنفین میں سے ہوں۔ کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ مہمت عاکف ایرسوئے نے  مندرجہ ذیل تنقیدی پہلووں کو نظرِ انداز کیا تھا۔

ٹیکنالوجی  اور ثقافت کا باہمی تعلق

ٹیکنالوجی بلا شبہہ  اس کے پیدا کردہ معاشرے کی عمومی ثقافت کا آئینہ دار ہوتی ہے۔ انسان کی از سر نو تخلیق کا مقصد رکھنےو الی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو کیا  اس میں شامل ثقافت سے خود مختار تصور کرنا ممکن ہے؟ میں صرف مغربی ثقافت کی بات نہیں کر رہا۔  چونکہ اب  ٹیکنالوجی کی پیداوار چین کی طرح کے  غیر مغربی معاشروں  میں بھی وسیع پیمانے پر کی جاتی ہے۔

صرف دشمن فوجوں کو ہی نہیں بلکہ داغے گئے علاقے کے لاکھوں انسانوں ، نباتات، جانداروں کو ختم کرنے والے  اور ان مقامات کے مستقبل کو تباہ کرنے والے ایٹم  اور نکلیئر بموں  کو ، جاپان پر   داغنے والی ذہنیت سے ہٹ کر سوچا جانا کیا ممکن ہے؟

اس مفاہمت کے برخلاف  سلطان سلیمان کے نقطہ نظر کو   ایک مختلف ٹیکنالوجی۔ ثقافت تعلق  کی مثال کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ سلطان سلیمان اپنے محل کے باغیچے میں چیونٹیوں کے درختوں  کو خشک کر دینے  سے بے چینی محسوس کرتے تھے۔ لیکن چیونٹیوں کے بھی جاندار ہونے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہوں نے اس صورتحال کو اشعار کی مدد سے شیخ السلام ابو صعود سے دریافت  کیا:

"پھلوں کے درختوں پر چیونٹیوں کا حملہ ہونے پر

کیا ان چیونٹیوں کو  ختم کرنے کا کوئی نقصان ہے"

ابو صعود کا شعر کی ہی شکل میں جواب ٹیکنالوجی۔ثقافت کے ایک مختلف طرز کے تعلق  کے قطعی جواب کی   حیثیت رکھتا ہے۔

ٹیکنالوجی کی بدولت  اجنبیت  کے ماحول میں تیزی آنے کا معاملہ بھی ضرور زیرِ بحث لایا جانا چاہیے۔

کونسی ٹیکنالوجی؟

بلا شبہہ ٹیکنالوجی ۔ ثقافت کا تعلق ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف ثقافتوں  کی تمام تر ٹیکنالوجی  پیداوار کے مضر ہونے کی سوچ نوک زنی،  نامعقولی اور مسترد کر دینے  کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ ہر ثقافت زندگی کے ڈگر پر اپنی ضروریات کو پورا  کرنے والی ٹیکنالوجی  کا بھی تقاضا پیش کرتی ہے۔ کس چیز کی ضرورت ہونے پر بحث کی جا سکتی ہے، تا ہم  انسانی ضروریات کے مختلف ثقافتوں میں  ایک دوسرے سے مختلف ہونے کا کہنا بھی نا ممکن ہے۔ اس بنا پر روز مرہ کی  زندگی میں ہر ثقافت سے تعلق رکھنے والے انسان  ملتی جلتی ٹیکنالوجی کو استعمال کررہے ہیں۔

ان  وجوہات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف ثقافتوں  میں تیار کردہ ٹیکنالوجی  پر نوک زنی اور  نامعقولی کا موقف ذی فہم نہیں ہو گا۔ اپنے رسم و رواج، تہذیب و ثقافت  کے دائرہ کار میں کسی خاص نقطہ نظر  کا مالک بننے سے بڑھ کوئی دوسرا قدرتی فعل  نا ممکن ہے۔

"علم حاصل کر وچاہے تمھیں اس کے لیے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے" ، "حکمت مومن کا اثاثہ ہے"، "دشمن کے اسلح سے  مسلح بن"، " طاقتور مسلمان کمزور مسلمان سے  کہیں زیادہ افضل ہے" جیسی احادیث  ہمیں ٹیکنالوجی کے معاملے  میں دلچسپی لینے  کے ساتھ ساتھ توجہ اور صحیح انتخاب کرنے   کی  نصیحتیں  کرتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے حصول کے معاملے میں پہل  کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔  دشمن کے اسلحہ سے اسلحہ اندوز ی  ایک مسلمان کے لیے کسی دوسرے ملک پر ایٹم بم  پھینکے کی ترغیب کا مفہوم نہیں رکھتی۔ میرے خیال میں ٹیکنالوجی کے حصول کا دفاع کرنے والے بھی اس سوچ  کے مالک  نہیں ہوں گے۔

تو کس چیز کی تجویز پیش کی جاتی ہے؟

ٹیکنالوجی  پر شک و شبہات  یا پھر منفی سوچ کے مالک  لوگ مخالفت سے ہٹ کر کوئی دوسری ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہتے  ہیں۔ عام طور پر مغربی ٹیکنالوجی  کو مغربی ذہنیت کے دوام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مغربی عقیدے، فلسفے کو سائنس کے ساتھ یکسانیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔  یہ تنقیدی نقطہ نظر بلا شبہہ    ایک طرح کی  نمایاں  چالاکی  کو جنم دیتا ہے۔ مگر یہ علم حاصل کروں چاہے تمھیں اس کے لیے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے نظریے کے برخلاف  ایک تنگ نظری پر مبنی سوچ ہے۔ یہ اجتماعی طور پر قبولی یا پھر مستردی اس سوچ کا دفاع کرنے والوں کو انتہا پسند سوچ کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی  کی پیداوار نہ کرتے ہوئے ، دوسروں کی تیار کردہ ٹیکنالوجی کو مسترد کرنا  ، دنیا سے ناطہ کٹے ہوئے  اور انتہا پسند  سوچ کے مالک معاشروں کو جنم دینے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔

دوسری جانب  ٹیکنالوجی کا محدود استعمال یا پھر اسلامی طریقے سے زندگی گزارتے  ہوئے  اس کے تقاضے کے مطابق کسی ٹیکنالوجی  کو پیدا کرنے  کی تجاویز بھی  پیش کی جا رہی ہیں۔ بلا شبہہ یہ تجاویز کافی قیمتی ہیں۔ ہر چیز کی  کہیں زیادہ کھپت کی خواہش موجود ہونے والے اس دور میں ہر طرح کی کہیں زیادہ کم سطح پر کھپت، اس کے بے جا استعمال   پر ایک کاری ضرب ہو گی۔ بلا شبہہ  مسلمانوں کو اپنے دین و مذہب کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے اور اپنے طرزِ زندگی کے مطابق ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس  طرز کی تجاویز پر  زندگی کی ڈگر سے  ہٹے بغیر جدید ترقی  کے ہمراہ سوچ  وبیچار کرنا با معنی ہو گا۔ تا ہم  اپنے آپ کو دنیا سے تنہا کرنے اور دوسروں سے دور رہنے کا عمل ، مسلم امہ میں  وسیع پیمانے کی مثالیں موجود ہونےو الی دہشت گردی کو ایک طریقہ کار کی نظر سے دیکھنے والے  انتہا پسند ریلے  کو مزید تقویت دینے کے خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔

ایسا  نہیں ہے کہ مسلم اُمہ  وسیع پیمانے کی کھپت،  ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال کے باعث  موجودہ حالات سے دوچار ہے اور نہ ہی یہ  کہیں کم سطح پر  ٹیکنالوجی کے استعمال کی  کوشش میں رہی ہے۔ عثمانی عمل در آمد میں سن 1838 میں  بالتا بند ر گاہ پر تجارتی معاہدے کی  رو سے   غیر ملکی مال و اسباب کی درآمدات  پر حد بندی اورپابندیوں  کا اطلاق موجود تھا۔ ہندوستان میں گاندھی کی خاموش  و  غیر متحرک مزاحمت  اور امریکہ میں امانوں  کی جانب سے ٹیکنالوجی سے آراستہ زندگی کو مسترد کیے جانے سے  ہم سب آگاہ ہیں۔ موجودہ دور میں بھی اگر تا حال مغربی  بالادستی اور نئی استعداد کا ذکر کررہے ہیں تو  یہ حقیقت آشکا رہے کہ  دنیا سے ہٹ کر ، جدید ٹیکنالوجی  سے دور زندگی بسر کرنے کی  تجویز پیش کرنا کسی قسم کا متبادل تشکیل نہیں دے گا۔ یہ طریقہ کار سرمایہ داری  کے فروغ  میں کمزوری لاسکتا ہے۔  تا ہم سرمایہ داری آج مغرب  سے تعلق رکھنے اور کل بدل سکنے والی برتری کو ختم نہیں کرتی۔

ٹیکنالوجی کا خوف و مخالفت

ٹیکنالوجی پر شک و شبہات کو اوپر  بیان کردہ حدود کے دائرہ میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ  ٹیکنالوجی کی مخالفت کو ایک رد عمل، اپنے آپ  تک محدود رہنے ،  پیچھے ہٹنے اور عدم خود اعتمادی کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا خوف یا پھر اس کی مخالفت، وحشی ٹیکنالوجی کے علاوہ  کہیں زیادہ انسانیت کی حامل ٹیکنالوجی  کو پیدا نہ کر سکنے  کے مفروضات کے ساتھ  ساتھ  گھٹنے ٹیکنے  کے موقف کا بھی تاثر دیتی ہے۔

نتیجتاً ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ خطرات، رسک اور منفی اثرات  کے انسانوں کا خاتمہ کر سکنے پر مبنی نکتہ چینیاں صرف ترک قوم تک محدود نہیں۔  اصل چیز اس ٹیکنالوجی کےسامنے  لازمی موقف کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ٹیکنالوجی کے  خلاف بلا تفریق کے اجتماعی  نفی کرنا   شعوری طور پر جاذب ِ نظر ہو سکتا  ہے۔ تا ہم قابل عمل چیزوں  کی مخالفت کرتے ہوئے خیالی پلاو پکانا، کسی ممکنہ حل کے حصول کے امکانات کو بھی معدوم کر دے گا اور اس موقف کے  خلاف نظریے کو مزید شہہ دینے اور پھیلانے میں معاون بھی بن سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں