تجزیہ - 28 ( بلقان سے ترکوں کی ہجرت )

مختلف ذرائع کے مطابق 18 ویں صدی کے آغاز  ہی سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اورترک یہاں  پر  نسل کشی کا شکار ہوئے اور  بڑی تعداد میں ان کو قتل کر دیا گیا یا پھر  ان کو اپنا گھر بار  ترک   کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

1233576
تجزیہ - 28 ( بلقان سے ترکوں کی ہجرت )

گزشتہ ہفتے  ترکی  کی  قومی اسمبلی کے اسپیکر مصطفی شَن توپ کی زیرسرپرستی اوراعزازی صدارت کے تحت انٹرنیشنل بلقان  یونیورسٹی کی میزبانی میں اسکوپ پانچواں  انٹرنیشنل  سوشل اسٹڈیز سمپوزیم منعقد ہوا۔ 

انقرہ  یلدرم بیاضد  یونیورسٹی  کی پولیٹیکل سائنسز فیکلٹی  کے ڈین  پروفیسر ڈاکٹر  قدرت بلبل  کا اس موضوع سے متعلق جائزہ پیش خدمت ہے ۔

اس سمپوزیم جس میں 13ممالک کے 617 اکیڈمیشنزنے شرکت کی راقم نے  یوتھ کے موضوع پر خطاب کیا ۔ اس سمپوزیم میں امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی طرح  کی شہرت یافتہ یونیورسٹیو ں  میں ترک محققین کے ساتھ ملاقات کرنے ، ان سے متعارف ہونے اور ترکی میں ان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن   جسے  یوق  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے علاوہ یونیورسٹیوں   سے متعلق  بات چیت کرنے کا موقع میسر آیا ۔

اس ہفتے کے پروگرام میں بلقانی خطے  سے ہجرت کےبارے میں اپنے خیالات پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں جب بھی بلقانی  ممالک کا دورہ کرتا ہوں اپنے آپ کو ماضی کی گہرائیوں میں کھوتے ہوئے اس خطے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہوں ۔اس خطے کے بارے میں سلطنت عثمانیہ کے آخری دور سے لے کر اب تک پھیلی ہوئی المیہ کہانی سے ہر کوئی لازمی طور پر متاثر نظر آتا ہے۔ 

بلقانی خطے سے  ہجرت  کی مختصر سی کہانی  یا پھر نسل کشی

 

مختلف ذرائع کے مطابق 18 ویں صدی کے آغاز  ہی سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اورترک یہاں  پر  نسل کشی کا شکار ہوئے اور  بڑی تعداد میں ان کو قتل کر دیا گیا یا پھر  ان کو اپنا گھر بار  ترک   کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے بلقانی خطے سے نام و نشان کے مٹ جانے  اور علاقے سے  منتشر ہونے کے بعدبلقانی خطے میں آباد مسلمان اور ترک  شدید  اضطراب  سے دوچار ہوئے۔ نسل کشی کی اصطلاح کو پہلی بار  دوسری جنگ عظیم سے قبل جرمنی کی جانب سے یہودیوں کے خلاف کیے جانے والے ظلم و ستم ، اجتماعی قتل عام اور اشکنجے  کی وجہ سے سے استعمال کیا گیا تھا ۔ بلقانی خطے میں مسلمانوں اور ترکوں پر کیے جانے والے ظلم ستم،اجتماعی قتل عام اور دکھ بھرے واقعات کی تعداد جرمنی میں کیے جانے والے نسل کشی کے واقعات سے کہیں زیادہ ہے ۔لیکن بدقسمتی سے دنیا کیا، خود ترکی بھی اور ترکی کے انسان بھی اس نسل کشی اور اجتماعی قتل عام کے واقعے سے اچھی طرح باخبر نہیں  ہیں۔

بلقانی خطےمیں سترویں صدی سے لے کر  انیسویں  اور بیسویں صدی تک جاری رہنے والے ظلم و ستم، قتل عام ، ہجرت  کے واقعات کے بارے میں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں  اور دنیا  کو باخبر رکھنے کے لیے   کوئی یادگاری فلم بھی موجود نہیں ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری قوم  اپنے  زخموں کو دنیا تک پہنچانے کے بارے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی ہے ۔وہ ان  ظلم و ستم   کو دنیا سے آگاہ کرنے کی بجائے  اسے اپنے سینے میں دفن کرنے اور اپنے اس  سفر کو  جاری رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنی زخموں کو کسی دستاویزی فلم میں پیش کرنے کے بجائے اپنے ذہن میں محفوظ  رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں  اور اور گاہے بگاہے اپنے  ان زخموں کی یاد تازہ کرتے ہوئے  اس پر بین کرنا  اور المیہ  لوک گیت  سنانا اپنے لیے بہترین انتخاب تصور کرتے  ہیں جو کہ کسی  آسکر ایوارڈ یافتہ  فلم سےزیادہ متاثرکن بھی ہیں۔ ۔ ان لوک گیتوں میں کسی قسم کی نفرت کا اظہار کرنے کے بجاے اپنے زخموں  پر مرہم رکھنے  اور  دکھ و مداو   کو یاد کرنے کا موقع میسر آتا ہے ۔اسے سلسلے میں ہمارے سامنے  چناق قلعے، یمن اور پلوانہ  کے نام سے مشہور  درد بھرے المیہ  لوک گیت موجود ہیں۔ 

سیاسی مقاصد کے لیے اپنے گھر بار کو ترک کرنے پر مجبور کئے جانے والےصرف ماضی ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ موجودہ دور میں بھی مختلف خطوں میں مختلف علاقوں میں ان کو اپنا گھر پر ترک کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔  ماضی قریب میں ہم نے  بلغاریہ کے ترک مسلمانوں کو اپنا گھر بارترک کرنےکے علاوہ کریمیا، قاراباغ، اوئغر ترکوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم، میانمار ، شام، اور فلسطین کے مسلمانوں کو مختلف مسائل  کے نتیجے میں  اپنا گھر بار ترک کرتے ہوئے  ہجرت پر مجبور ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

ترک کیا جانے والا بلقانی خطہ

ہماری  اپنے ساتھیوں سے ہونے والی   صحبت  اور   گفتگو کا مین موضوع اپنا گھر بار ترک  کرنا اور ہجرت ہی ہے۔   بلقانی خطے  میں  سلطنت عثمانیہ کے دور میں  شروع ہونے والی ہجرت صرف اسی دور تک محدود نہیں رہی  بلکہ جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد تک  بلکہ موجودہ دور تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی ہے۔  بلقانی خطے میں ترکوں کی آبادی میں مسلسل کمی آتی چلی جارہی ہے ۔ترکی دراصل  بلقانی خطے میں مسلمانوں اور ترکوں کی آخری امید اور کرن  کی حیثیت رکھتا ہےکیونکہ کسی ایک خطے  میں اقلیت ہوناا بڑی مشکلات  کا باعث بھی ہوتا ہے۔  اقلیت کے طور پر زندگی بسر کرنے والے باشندے باہر سے ہمیشہ ہی کسی طاقتور ملک کی  حمایت اور پشت پناہی کے منتظر رہتے ہیں۔یہ پشت پناہی ضروری نہیں کہ مالی  لحاظ ہی سے پشت پناہی ہو بلکہ کسی قسم کی بھی  پشت پناہی اقلیت  کےلیے سکھ کا سانس لینے کا موجب بنتی ہے۔ وائس آف ٹرکی کی پروگرام میں  حصہ لینے والے شمالی مقدونیہ  کی آئینی عدالت کے  رکن صالح  مرات  نے کہا کہ" ہم ترکی سے کوئی توقع وابستہ کیے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ترکی   اپنی ماضی رفتہ  کی عظمت کو برقرار  رکھے  اور اس کا صرف  سایہ ہی ہمارے لیے کافی ہے"  

بلقا نی خطے کے  ترک کسی نہ کسی طریقے سے  ترکی کے ساتھ اپنے رابطے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک اپنے بچوں کا مستقبل ترکی میں محسوس کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن زیادہ تر بلقانی خطے کے  ترکوں کے کسی دوسرے ملک چلے جانے سے علاقے میں  ترکوں کی تعداد کے کم ہوتی چلی جا رہی ہےجس کی وجہ سے علاقے میں  موجود ترک  اپنے آپ کو تنہا  محسوس  کرتے ہیں۔  ماضی میں بلقانی خطے جہاں دو ملین کے قریب ترک آباد تھے پانچ لاکھ کے قریب تر ک اپنا گھر بار ترک کرتے ہوئے ترکی  میں قیام پذیر ہیں۔ اگرچہ  ترکی کی آبادی کے لحاظ سے  یہ تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن  یہ  تعداد  اپنے آبائی  ملک کی آبادی کے لحاظ سے 25 فیصد کے لگ بھگ تشکیل دیتی ہے جو کے ہم سب کے لیے لئے لمحہ فکریہ  ہے۔اگر ماضی میں ترک اسی خطے میں آباد رہتے  تو آج ان کی تعداد خطے میں کہیں زیادہ ہوتی۔

صحیح پالیسی،  خطے ہی میں   اپنی قوت میں اضافہ کرنا

ہم اپنے گزرے ہوئے ماضی کو تو واپس نہیں لا سکتے لیکن ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے موجودہ  دور  کی پالیسی کو صحیح طریقے سے وضع کر سکتے ہیں۔موجودہ دور میں پناہ گزینوں اور مہاجرین کو اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین م پر موجود شاہکاروں  اور یادگاروں کا خصوصی طور پر خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان شاہکاروں  اور  یادگاروں کا خیال رکھنا صرف  تیکا ،  وائی ٹی بی ی،   یونس ایمرے انسٹیوٹیٹ یا پھر معارف فاونڈیشن   کی ذمہ داری نہیں ہے۔بلکہ  یہ  ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔اس سلسلے میں میں  بلقانی خطے سے ہجرت کرنے والے مہاجرین پر  گاہے بگاہے اپنے آبائی ملک کا دورہ کرتے ہوئے ان تمام شاہکاروں  اور یادگاروں کا خصوصی طور پر خیال رکھنے کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ دوسرے ممالک ہجرت کرنے پر مجبور ہونے والے یہ پناہ گزین اپنے ملک واپس جاتے ہوئے  وہاں پر آباد غیر مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرتے ہوئے  ماضی کی یادوں کو زندہ کرسکتے ہیں۔جس طرح روس  اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے باشندے بلقانی خطے میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اسی طرح ترکی کو بھی  خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے  اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا موقع بھی میسر آ سکتا ہے ۔ ترکی میں آباد بلقانی باشندے  صرف ترکی بلقان کے ممالک  کے درمیان ہی نہیں بلکہ   دنیا کے مختلف خطوں میں آباد  بلقانی ممالک کے باشندوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے  کے  پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔  

جب ہم ہجرت کا نام لیتے ہیں  تو اس کے لیے کئی ایک  عنوانات ہمارے سامنے آتے ہیں ۔اس سلسلے میں مغربی یورپی ممالک  کی اقتصادی  صورتحال سے متاثر ہوکر ہجرت کرنا ،وہاں سے واپسی ،کریمیا،  کاکیشیا، آحسکہ  اور اوئغر  نژاد ترک باشندوں کی ترکی کو ہجرت ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہجرت کے موضوعات ہیں۔ غیر ممالک میں  آباد ترک نژاد باشندوں  سے متعلق  پالیسی کو کس طرح وضع   کیا جائے اس بارے میں کسی پ آئندہ کے پروگرام  میں ذکر کریں گے۔

 ابھی آپ نے انقرہ  یلدرم بیاضد  یونیورسٹی  کی پولیٹیکل سائنسز فیکلٹی  کے ڈین  پروفیسر ڈاکٹر  قدرت بلبل  کا جائزہ سماعت فرمایا۔ اللہ حافظ

 

 



متعللقہ خبریں