تجزیہ 20 (ترکی کے تجربات اور ہوراسان راہداری)

علوم و اقدار کے ہوراسان دریا کے عالمی اقدار پر اثرات اور ترکی کے تجربات، پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کے قلم سے

1201937
تجزیہ 20 (ترکی کے تجربات  اور ہوراسان راہداری)

زندگی سے متعلق مثبت نظریات کے مالک انسانوں کے  لیے  مایوسانہ تحریریں قلم بند کرنا ایک بالکل آسان کام نہیں۔ میں آپ پیارے  دوستوں  کو  امن و آشتی کی جانب پیش رفت کرنے والی کسی دنیا،  آزادی  کے گیتوں، بھائی چارے پر مبنی تعلقات اور تصادم کے بجائے  اتفاق و سلوک  پر مبنی  تجزیات  پیش  کرنے  کے خواب  کو دیکھتا رہتا ہوں اور اسی امید کے ساتھ دنیا بھر کے منفی واقعات  پر بات کرتے وقت اچھی باتوں  کے انتظار میں رہتا ہوں۔

انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ  ۔۔۔۔

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے امریکہ، روس، چین اور دیگر ادا کاروں کے محور پر ہم سب کہیں زیادہ جھگڑا آلو دنیا  کی جانب سرک رہے ہیں۔ عالمی اداکاروں سمیت ،  انفرادی یا پھر اجتماعی دہشت گردی،  ہمارے مختلف نظریات کے ساتھ ایک ساتھ زندگی بسر کرنے   کی خواہش  ہونے والے لوگ زندگی کے گھیرے میں  ہر  گزرتے دن مزید تشنگی لا رہے ہیں۔ مغربی ممالک کا بتدریج دوسری عالمی جنگ سے قبل  کے حالات  کی  جانب سرکنا، مختلف  نظریات کے حامل  انسانوں  کے خلاف جان لیوا حملوں،     سٹھیا جانےو الی ذہنیت  کی مالک دہشت گرد تنظیم داعش، نیو زی لینڈ اور سری لنکا میں رونما ہونے والے    مذموم واقعات ، ٹیرنٹزم  اور عیسائیت کو پھیلانے کی  کوششوں  کو ذہن میں لانے سے انسان   مختلف وہم و وسوسوں میں پڑ جاتا ہے۔

ہمارے افق  کو بتدریج تاریکی کی جانب دھکیلنے والی  اس پیش رفت کے خلاف، ہمیں  مسلم امہ اور دنیا بھر میں  امن و امان اور بھائی چارے کی فضا کو پیدا کرنے والی کسی کائناتی زبان اور مؤقف کی ضرورت در پیش ہے۔ یعنی   ہر کس   کو نمایاں سطح کی اقدار کو قبول کرنے  اور مل جل کر زندگی بسر کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے والے کسی  کائناتی  اخلاقی اقدار  کی ضرورت لا حق ہے۔

دیگر شعبوں میں بھی خاصکر دینی معاملات میں  اکثریت  کی جانب سے اپنائی گئی اور دلی طور پر عمل درآمد کردہ صورتحال  کیا ہم بنی نو انسانوں کے باہمی مسائل کو حل نہیں کرسکتی؟

لوگ اپنے جیسے لوگوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں تا ہم ، ایسا کرنے کے وقت ، اجنبیت،  غیرے پن اور دشمنی کا مظاہرہ کیونکر کیا جاتا ہے؟

اپنے سے مختلف نظریات کو کسی خطرے کی نظر سے دیکھنے کے بجائے ، ان  کو کسی موقع اور سرمائے کے طور پر دیکھنا ، ان سے  رواداری  کا مظاہرہ کرنا ہمارے لیے امن وآشتی لانے کے علاوہ کس قسم کا نقصان  پیدا کر سکتا ہے؟

محض  وصول کرنے کے بجائے ،دینے اور  دوسروں کے ساتھ مل بانٹنے کی سوچ  و عمل درآمد  کیا ہماری خوشنودی و استحکام کا بنیادی عنصر نہیں ہے؟

اپنے سے مختلف انسانوں کی تحقیر، مختلف لسان، مذہب، رنگ، نسل ، نظریے و مفاہمت  کو بالا دستی کے منبع کی نظر سے نہ دیکھنا کیا  مل جل کر زندگی بسر کرسکنے کی بنیاد  کو تشکیل نہیں دیتا؟

در حقیقت مندرجہ بالا اقدار کی اکثریت،  آج کائناتی اقدار کے نام سے جانی و پہچانی جاتی ہیں۔ البتہ  اس سے قبل  کے تجزیوں میں جیسا کہ میں نے اشارہ کیا تھا کہ جیسے کہ ہم" اقدار کا قلع قمع " ہونے والے کسی زمانے میں زندگی گزار رہے  ہیں۔ ماضی میں  عدم اصولوں پر عمل درآمد کی خواہشات کو چاہے ظاہری طور پر ہی کیوں نہ ہو ایک خاص قالب میں ڈھالا جاتا تھا۔ لیکن اب ہم ہر طرح کی اقدار  کو پاؤں تلے روندے جانے والی ایک دنیا میں رہ رہے ہیں۔ دوسری جانب  تجریدی  طور پر  قبول کردہ  اور بعض سمجھوتوں میں جگہ پانے والی   لیکن  دروں زاد نہ بننے والی اقدار یا پھر اصول زیادہ  تر کاغذ کے ٹکڑے پر تحریروں تک ہی محدود رہتے ہیں۔

آج کی دنیا میں تصادم، انتہا پسندی،  زبردستی یکسانیت ، محرومی، دباؤ  اور مظالم کے ماحول کا چرچا  ہے۔

آیا کہ اوپر بیان کردہ اقدار  کا تجریدی  طور پر اظہار کرنے کے علاوہ ، کہیں زیادہ  اخلاقی خوبیوں سے سرشار  کسی دور کو دیکھا گیا ہے؟

ہم اپنی تہذیبی اقدار  کی بدولت اس سوال کا باآسانی سے 'ہاں' میں  جواب دینے کے اہل   ہیں۔

ترکی کے علاقے ہوراسان سے دنیا بھر میں پھیلنے والی مفاہمت، ادراک ، مفاہمت اور سوجھ بوجھ  اوپر ذکر آنےو الی اور ذکر نہ کی جا سکنےو الی  متعدد اقدار ، ان اقدار  پر عمل درآمد کرتے ہوئے انہیں اپنانے  کی تعلیمات دیتی ہیں۔  اس راستے  کو یعنی ہوراسان  راہداری کو ، یہودیت ، صوفی ازم، ہوراسان  کی پہنچی ہوئی شخصیات  اور  مولوی ازم جیسے مختلف ناموں سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ چاہے انہیں جس کسی بھی نام سے کیوں نہ پکارا جائے  یہ اپنے اندر   ایک جیسی خصوصیات کا بسیرا  کراتی ہیں۔ ایک جغرافیائی علاقے اور یہاں سے دنیا بھر میں پھیلنے و الے تخیل  کی جانب اشارہ  کرنے کی بنا پر  میں اسے ہوراسان  راہداری  کہنے کو ترجیح دوں گا۔

اولین طور پر ہوراسان کے محل و قوع سے آگاہی کراتے چلیں۔ ایران، افغانستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغزستان، ازبیکستان  کے بعض علاقوں سمیت مرو، ہیرات، نیشا بور، بلخ، بخارا، ثمرقند شہروں   پر محیط  خطے کو ہوراستان سے منسوب کیا جاتا ہے۔  ہوجا احمد یسیوی سمیت شاہ نقشبندی، مولانا جلال الدین رومی، حاجی بائرام ولی، حاجی بیکتاش ولی  کی طرح کی شخصیات ہوراسان علاقے سے تعلق رکھتی ہیں  جنہیں تعلیمات کو دنیا  بھر میں مقبول عام کرنے کی بنا پر انتہائی قیمتی کائناتی ممتاز شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ آہی ایورین، یونس ایمرے، سارے سالتوک، سومنجو بابا، گل بابا  جیسی شخصیات بھی انہی کے راستے پر چلنے والی اقدار ہیں۔

ان شخصیات کی بنیادی خصوصیت  اسلامی تہذیب کے کائناتی پیغام کو پھیلانے کے وقت غیرے ، اجنبی  اور مختلف طبقوں  پر بالا دستی  رکھنے کی سوچ سے عاری مؤقف کا مظاہرہ کرنا  اور مذہبی، ثقافتی، سماجی  رواداری اور اخلاص  کی طرح کی خصوصیات سے مالا مال ہونا  ہے۔ انہوں نے آج کائناتی اقدار کے طور پر تسلیم کردہ  ان اصولوں کو  نہ صرف اپنایا اور پسند کیا  بلکہ  اپنے اپنے   طرزِ زندگی اور اخلاقیات کی دنیا بھر مثالیں بھی  قائم کیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں مختلف اعتقاد کے مالک  انسانوں کو تحقیقات کی غرض سے روانہ کیے جانے کے وقت کسی لائٹ ہاؤس  کے طور پر دیکھی جا سکنے والی ان ممتاز شخصیات  کی کوششوں اور رہنمائی کی بدولت دولتِ عثمانیہ کے جغرافیہ میں  نفوس کی ایک کثیر تعداد کو تشکیل دینے والے غیر مسلمین  اپنے اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ  زندگی بسر کرسکے۔ عصرِ حاضر  کی کائناتی اقدار  کا ا٫0لم بلند کرنے  کے باوجود ہوراسان  راہداری کی بدولت منظرِ عام پر آنے والے اس نقطہ نظر کا زیادہ ملکوں میں مشاہدہ نہیں ہوتا۔

ہوراسان راہدای کے  بنیادی اصولوں  کی مولانا کے 7 اقوال  بڑے احسن طریقے سے  ترجمانی کرتے ہیں:

سخاوت و مدد شناسی میں کسی ندی  جیسے بنو

شفقت و رحم میں آفتاب جیسے بنو

دوسروں کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے میں تاریک شب   بنو

طیش اور عصبیت کے وقت مردے کی طرح ٹھنڈے بنو

شرافت و عاجزی  میں مٹی کی مانند سادہ بنو

تحمل و برداشت میں سمندر کی مانند بنو

ایسے بنو کہ تمھارا ظاہر و باطن  یکساں  ہو

حضرت علی ؓ کا قول "انسان  تخلیقی طور پر تمھارے برابر یا پھر دین میں بھائی بھائی ہیں"  بھی ہوراسان  طرز ِ زندگی کے بنیادی فلسفے و سوچ کا مظاہرہ کرتا ہے۔

وادی ہوراسان  سے جنم پاتے ہوئے دنیا بھر میں پھیلنےو الی اس سوچ  ، نقطہ نظر اور تجربات کو دراصل ترکی کے تجربات سے بھی منسوب کیا  جا سکتا ہے۔

ترکی کے تجربات اس بنا پر آج مسلمانوں اور بنی نو انسانوں  کو در پیش غیرے پن، اجنبیت، نفرت  جیسے نظریات کو دور کرنے کی استعداد کے مالک  شاید  واحد تجربے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔ عالمی شر پسند حلقوں  کی جانب سے اپنے مفادات کی خاطر  اپنایا گیا بے بنیاد اور اشتعال انگیز مؤقف شاید عارضی طور پر ان کے لیے فائدے لا سکتا ہے  تا ہم درمیانے اور طویل دورانیہ میں  بنی نوانسانوں کی  سلامتی ، اخلاقیات اور  اقدار کا تحفظ حقیقی ہوراسان تعلیمات میں پنہاں ہے۔



متعللقہ خبریں