تحزیہ 18 (ازبیکستان ڈائری)

پروفیسر ڈاکٹرقدرت بلبل کا دورہ ازبیکستان اور اس کے ماضی پر ایک جائزہ

1193357
تحزیہ 18 (ازبیکستان ڈائری)

اس کالم کا عنوان "لا پتہ تہذیب کا سراغ" بھی ہو سکتا تھا، شاید یہ اس کے مواد کے مطابق زیادہ موزوں ہوتا۔ تا ہم حالیہ ایام میں ماترودی میں یا پھر ترکستان میں  تلاش کیے جانے کی صورت میں فریڈریک سٹار کی تحقیقات کی طرح "لا پتہ توضیح" نہیں ہو سکتا تھا۔ کیونکہ  وضاحت  یا آشکار کرنا مغرب  کو اپنے رسم و رواج سے دور ہٹانے والا، عقل و منطق کی رہنمائی  سے ہٹ کر کسی بھی عقلیت پسندی کو تسلیم نہ کرنے والا ایک نظریہ  یا پھر مغرب کو موجود سطح پر لانے وا لا ایک روڈ میپ ہے۔ بنی نو انسانوں کو پیش آنے والی خونی ترین  دو عالمی جنگیں بھی اسی  توضیح کانتیجہ ہیں۔ در اصل ہم جس لا پتہ تہذیب کے متلاشی ہیں  وہ  استحصال نہ کرنے والا اور انصاف کے ترازو پر قائم ایک مختلف روڈ میپ  ہے۔

انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔۔

میں یہاں پر اپنے دورہ ازبیکستان کا ذکر کرنے کی کوشش میں ہوں۔ ترکی تعاون و رابطہ ایجنسی کےزیر اہتمام انقرہ تھنک ٹینک و ریسرچ سنٹر، صباحتین ضائم یونیورستی اور ازبیکستان نیشنل یونیورسٹی کے  تعاون سے منعقدہ سپموزیم  میں شرکت کی غرض سے گزشتہ ہفتے ہم نے ازبیکستان کا دورہ کیا۔

انسان  ایک ہزار قبل اپنے آبا­و اجداد  کے مقیم ہونے والی سر زمین کو جاتے وقت  اپنے  بڑوں، بزرگوں کی جانب سے  دعوت نامہ وصول کرنے کی طرح محسوس کرتا ہے۔ ہمارے اندر  ہزار سالہ جدائی کے باعث افسوس، اداسی اور تجسس کے احساسات نمایاں تھے۔

میں نے وہاں جانے سے پیشتر  علاقے کے حوالے سے بعض  معلومات سے آگاہی حاصل کرنی چاہی۔ تا ہم خاصکر  ازبیکستان اور عمومی طورپر وسطی ایشیا  کے حوالے سے ترکی زبان میں علمی تحقیقات ، یادیں اور سفر نامے اس قدر محدود سطح پر ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسےآپ  مادرِ وطن نہیں بلکہ میکسیکو کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہوں۔ موجودہ  ذرائع کو آپ انقرہ کے بک اسٹورز سے حاصل نہیں کرسکتے۔ دوسری جانب انگریزی زبان میں  اولین طور پر یوری بریگل  کی "A histroical Atals of Asia" نامی تصنیف سمیت  کئی ایک تحقیقاتی کام  موجود ہیں۔

ترکستان

ترکی  اور ازبیکستان میں تاریخی شعور کے حامل انسان، آج جمہوریہ ترکی کے نام سے یاد کیے جانے والے  وسیع جغرافیے کے مالک  علاقے کو ماضی میں ترکستان کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا، سوویت یونین کے قبضے کے بعد  روسیوں  نے اس علاقے کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے زیر مقصد مختلف ناموں سے وابستہ کرنے کا اکثر و بیشتر تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ بعد ازاں ترکستان کا  لفظ اس جغرافیہ میں زیادہ فراموش کر دیا گیا، حتی بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسے لوگوں کے ذہنوں سے مٹا دیا گیا۔ ترکی کے ترک شہری کے طور پر  ہم نے مرحوم ترگت اوزال کے دور میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد آگاہی حاصل کی۔ ازبیکستان کے دورے کے دوران ایک ہم سفر کی یادیں اس صورتحال کی گہرائی کا مشاہدہ کراتی ہیں:" اوزال کے دور سے قبل جاپانیوں کی طرف سے  بنائی گئی شاہراہ ریشم دستاویزی فلم میں قزاق، کرغز اور ازبیک عوام کا تعارف کراتے وقت نماز ادا کرنے والے اور وضو کرنے والے انسانوں  کا مشاہدہ کرتے ہوئے مجھے  کافی حیرانگی ہوئی۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ معاشرے ہماری تعلیم و تربیت کے مطابق تاریخ  کے ایک دور میں اپنا وجود رکھنے تا ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صفحہ ہستی سے مٹنے  والے معاشرے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی خطے میں  ان کا وجود  موجود ہے اور یہ اپنی زندگیوں کو یہاں پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔"

بلا شبہہ ماضی کو جاننا، واقعات سے  واقف ہونا قدرے اہمیت کا حامل ہے۔ جی ہاں، آج مشرقی ترکستان کے نام سے یاد کیے جانے والے علاقے   پر بھی محیط ترکستان کا لفظ ماضی میں ان معاشروں کے مقیم ہونے والے جغرافیہ کی وضاحت کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ ایسا ہونے کے ساتھ ساتھ اس صورتحال پر مسلسل زور دینا ہمیں مزید آگے نہیں لے جاتا۔ یہ صورتحال محض سوویت یونین کے زیرِ تسلط علاقوں میں رونما نہیں ہوئی ۔ قومی مملکت کے سلسلے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک  میں یہ تقسیم کسی نہ کسی شکل میں رونما ہوئی ہے۔ ایک دور میں دولتِ عثمانیہ  کی حدود میں شامل محل و قوع میں آج ریاستوں کا وجود پائے جانے کا کہا جاتا ہے۔ بیسیوں واقعات کے بعد افسوس کرنے کے بجائے باہمی تعلقات کو کثیر الجہتی طور پر کس طرغ فرو غ دیے جانے  پر ہمیں توجہ دینی ہو گی۔ آج کے لیے بامعنی ہونے والے ، انگریزوں کے کامن ویلتھ، فرانس  کے فرانسیسی زبان بولنے والے طبقے  جیسے ڈھانچوں کے قیام کی وساطت  سے تا ریخی اجتماعیت  کو کثیر الجہتی تعاون  کےقیام کے لیے ایک وسیلہ کے طور پر بروئے کار  لائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

معماری

علی الصبح تاشقند  پہنچنے پر بارش کی پھوار  اور موسم ِ بہار کے ایک حسین دن نے ہمارا استقبال کیا۔ میں  ہزار سالہ جدائی اور ملنے کے جذبات سر شار ہمارے آباو اجداد کے  پُر نم  آنکھوں کے ساتھ ہمارا  خیر مقدم کرنے  جیسے جذبات  میں گم سا گیا۔

ہوائی اڈے سے ہوٹل جاتے وقت تاشقند، ثمر قند اور بخارا میں سب سے زیادہ توجہ کی حامل چیز ازبیکستان کا ایک سر سبز و شاداب مملکت ہونا تھا۔کشادہ سڑکیں،دیو قامت درخت، باغات اور بڑے احسن طریقے سے تحفظ کردہ تاریخی ساخت کا جگہ جگہ پر مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہم نے جس جس مقام کی سیر کی  وہاں پر شاید ہی ایسی کوئی عمارت تھی جس کی بلندی دیو قامت درختوں سے بلند ہو۔ تاشقند، ثمر قند اور بخارا کے تاریخی مقامات کسی اوپن ایئر میوزیم کی مانند ہیں۔ انسان کو بے چین اور تنگ کرنے والی شاید ہی کوئی عمارتیں موجود ہوں ، انسان اس خصوصیت کا مشاہدہ کرتے ہوئے ترکی میں کن کن خوبیوں کو کھونے  کا زیادہ بہتر طریقے سے انداز ا کر سکتا ہے۔ بعض مقامات پر اِکا دُکا دکھائی دینےو الی اور سوویت یونین کے دور تعلق ہونےوا لی ، سرد مہر، بےڈھنگ  عمارتیں  بے چینی کا احساس پیدا کرتی ہیں تو بھی ملک کی روایتی ساخت و ڈھانچے کو بگاڑنے والے ان مناظر کو نئی عمارتوں کی تعمیر کےذریعے ختم کیا جا رہا ہے۔ نئی عمارتیں بھی اس ملک کی تاریخی ساخت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ ایسا ہے کہ پہلی نظر میں ان عمارتوں کے تاریخی یا پھر نئی ہونے کا اندازہ کرنا قدرے مشکل ہے۔

علوم و تہذیب

ازبیکستان میں بلا شبہ انسان کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والے مدرسے ہیں۔ اس سرزمین پر 15 ویں صدی میں تعلیم، سائنس، ثقافت، تہذیب و تمدن کوکس قدر زیادہ اہمیت دیے جانے اور اس ضمن میں کتنے بڑے مراحل طے کرنے کا  مشاہدہ کرنے   پر ، ہماری تعلیم و تربیت کے مطابق علمی و سائنسی ترقی کے محض مغرب تک محدود ہونے کا خیال رکھنے والے ہم جیسوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ تاشقند کے سولہویں صدی سے تعلق رکھنے والے کوکلے داش مدرسے کی سیر کرتے وقت پروفیسر ڈاکٹر امین گیوکتاش  نے بے ساختہ طور پر کہا کہ سولہویں صدی میں مغرب میں اس قدر پر احتشام، پرتعیش اور تمام تر تفصیلات سے آراستہ کوئی تدریسی ادارہ موجود نہ تھا۔ '

ثمر قند کے سحر انگیز اریگستان چوک کو پہنچنے پر انسان کے اندر کئی دنوں تک وہیں پر رہتے ہوئے اس کے نظارے سے محظوظ ہونے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔یہ چوک کو سال 2001میں یونیسکو کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے۔ یہ چوک، در اصل ایک کلیہ، اولو بے، شیردور اور تل کاری مکتبوں پر مشتمل ہے۔ اولو بے مکتب کو شہنشاہتِ تیمور کے چوتھے سلطان جو کہ ماہرِ فلکیات بھی تھے کی جانب سے تعمیر کرایا گیا تھا۔ اولو بے  کے دور میں یہاں پر ریاضی اور علوم ِ فلکیات کےاسباق دیے جاتے تھے، جسے اُس دور کی اہم ترین جامعات میں سے ایک کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ ان تینوں مکتبوں کی عظمت و معماری  قدیم دور میں علم و سائنس کو کس قدر اہمیت دیے جانے کو سمجھنے کے اعتبار سے قدرے متاثر کن ہے

ازبیکستان کے سینکڑوں مکتبوں میں سے محض (کوکیل داش)  اور بخارا  کے میر عرب مدرسے میں آج بھی تدریسی سرگرمیاں جاری ہیں۔ انسان اس حقیقت سے آگاہی پانے پر افسوس کرتا ہے تو  ترکی میں کسی بھی قدیم مدرسے میں تعلیمی سرگرمیاں جاری نہ ہونے  کو جاننے سے مزید افسردہ ہو جاتا ہے۔ مغرب میں آکسفورڈ اور ہارورڈ کی طرح کی تاریخی جامعات  قدیم عمارتوں میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کوآج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک رسم و رواج کے دوام، تاریخ اور تہذیب کے شعور کو برقرار رکھنے کی خاطر ازبیکستان اور ترکی میں بھی قدیم مکتبوں  کی عمارات کو مغربی ممالک کی طرح جامعات سے منسلک کرنے  یا پھر کم ازکم ان کے بعض حصوں کو فوری طور پر تعلیمی سرگرمیوں کے لیے بروئے کار لایا جانا ایک اہم اقدام ہوگا۔

وسطی ایشیا میں  متعدد فن پاروں اور ایجادات کی راہ ہموار کرنے والے اپنے دور کے اہم ترین ریاضی دان اور ماہر ِفلکیات اولو بے  کی زندگی افسوسناک طریقے سے کس طرح نکتہ پذیر ہوئی تھی؟ اس پر ہمارے دیگر مشاہدوں کے ہمراہ آئندہ ہفتے کے کالم میں ذکر کیا جائیگا۔



متعللقہ خبریں