تجزیہ - 14 ( ترکی کے بلدیاتی انتخابات )

جمہوریہ  ترکی میں 19 ویں بار  بلدیاتی انتخابات کا انعقاد    31  مارچ 2019 کو ہوا۔ اتحادِ جمہورنے 51٫6 فیصد، اتحادِ ملت نے  37٫5 فیصد  ووٹ حاصل  کیے

1176485
تجزیہ - 14 ( ترکی کے بلدیاتی انتخابات )

سن 1840  سے شروع ہوتے ہوئے  عہد ِ جمہوریہ  ترکی میں 19 ویں بار  بلدیاتی انتخابات کا انعقاد    31  مارچ 2019 کو ہوا۔ اتحادِ جمہورنے 51٫6 فیصد، اتحادِ ملت نے  37٫5 فیصد  ووٹ حاصل  کیے۔ سیاسی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی شرح کا اگر 2014 کے بلدیاتی انتخابات سے موازنہ کریں تو  غیر رسمی نتائج کچھ یوں ہیں: آک پارٹی نے 2014  کی 43٫1 فیصد کی شرح کو 44٫3 فیصد تک بڑھایا ہے،  تا ہم  اس کے میٹروپولیٹن  اور چھوٹے شہروں میں میئروں کی تعداد 48 سے 39   تک کم ہو گئی ہے۔ ریپبلیکن پیپلز پارٹی   کے ووٹوں کی شرح 26٫6 فیصد سے 30٫1 فیصد تک بڑھی ہے تو اس  کے بڑے شہروں  میں میئروں کی تعداد  14 سے 21 تک ہو گئی ہے۔ نیشلسٹ موومنٹ پارٹی کے ووٹوں کی شرح 17٫8 سے 7٫3 فیصد تک گری ہے البتہ اس کے شہری میئروں کی تعداد 8 سے 11 ہوئی ہے۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی  کے ووٹوں کی شر ح اس سے قبل کی طرح 4٫2 فیصد رہی ہے۔ لیکن  اس کے میئروں کی تعداد میں گراوٹ آئی ہے۔

سامعین انقرہ  یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین  پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا  مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ پیشِ خدمت ہے۔

Geçiş

ان نتائج سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟ میں آج کی اس تحریر میں ترکی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے عالمی اور قومی سطح پر مفہوم پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔

انتخابات میں سے  سب سے زیادہ  ناکامی "ترکی ایک ڈکٹیٹر ملک ہے" کہنے والوں کو ہوئی ہے۔

بلدیاتی انتخابات ہونے کے باوجود ، عالمی  میڈیا کے ان میں کافی زیادہ دلچسپی لینے کا مشاہدہ ہوا ہے۔ اس کے اہم اسباب  میں سے ایک ، ان تحریروں کے قلم بند کرنے کے وقت انقرہ اور  استنبول  جیسے بڑے شہروں   کی انتظامیہ میں تبدیلی آنے کی اطلاعات تھیں ۔ بعض عالمی میڈیا  اور سیاستدانوں کے  ڈکٹیٹرشپ اور سخت گیر انتظامیہ کا الزام عائد کردہ   ترکی کے امیج پر اس حد تک یقین کیا جانے لگا تھا کہ انتخابی نتائج کے مطابق ، بعض شہروں میں انتظامیہ کی  ممکنہ  تبدیلی  ان حلقوں کے لیے  ایک غیر متوقع پیش رفت نہیں  ہے۔ تقریباً 180 برسوں  سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرنے والے ترکی میں اس صورتحال نے تعجب نہیں دلایا تو  اپنے گرد قائم کردہ فانوس کے اندر سے ترکی کی جانب دیکھنے والا بعض مغربی میڈیا اور سربراہان کو  ان نتائج کو سمجھنے  میں  مشکلات کا سامنا ہے۔  یہ حلقے ترکی کے خلاف پراپیگنڈا  بیانات  کے ساتھ ایک بار پھر منظر عام پرآئے ہیں۔اس اعتبار سے شاید انتخابات  میں سب سے زیادہ نقصان پہنچنے والے رجب طیب  ایردوان پر  ڈکٹیٹر ہونے کی الزام تراشی کرنے والے یہی حلقے ہیں۔

کیا دوسرے ممالک میں کیمونسٹ پارٹی ہے؟  اگر ہے تو کیا اس نے انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے۔  میں نہیں جانتا۔ ان انتخابات میں تنجیلی  میں ترکی  کیمونسٹ پارٹی کے امیداوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔  یہ کامیابی اس نے PKK  دہشت گرد تنظیم کی دھمکیوں اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے دباؤ کے باوجود حاصل کی ہے۔ یہ صورتحال،  تخلیق کردہ خیالات  نہیں حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں  حلقوں  کے لیے ترکی کے  ایک  عملی جمہوری   ملک ہونے کی ایک دوسری دلیل ہیں۔

آک پارٹی: کامیابی و انتباہ

آک پارٹی 44٫3 فیصد ووٹوں کے ساتھ اپنے قیام کے بعد سے  15ویں  انتخابات میں سرخرو ہوءی ہے۔ 2002 سے برسرِ اقتدار ہونےو الی ایک پارٹی کا ، حالیہ اقتصادی بحران کے باوجود  اس سے قبل کے انتخابات کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ ووٹ لینا  ایک بڑی کامیابی کے زمرے میں آتی ہے۔ اسی طرح 24 جون  2018 کے صدارتی انتخابات  میں حاصل کردہ 52٫3 فیصد ووٹوں کی شرح سے موازنہ کرنے سے اتحادِ جمہور  کے محض 0٫7 فیصد ووٹ کھونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ملک گیر ووٹوں کے تناسب میں اضافے کے باوجود آک پارٹی کو بعض بڑے شہروں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صدرِ محترم ایردوان  نے  چبوترہ  خطاب میں اس صورتحال کے اسباب پر توجہ دینے اور ضروری سبق سیکھنے کا اظہار کیا ہے۔

ریپبلیکن پیپلز پارٹی  (CHP)   میں تبدیلیاں

حزبِ اختلاف کی پارٹی CHP  نے اس سے قبل کے بلدیاتی انتخابات کے  مقابلے میں اپنے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ تا ہم صدارتی انتخابات میں امیدوار محرم اِنجے  کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب 30٫6 فیصد  سے کم  سطح پر ہے۔ سی ایچ پی  کے لحاظ سے  کامیابی  کے طور پر پیش کردہ بعض بڑے شہروں میں  ان کے ووٹوں کے تناسب  میں  اضافہ  اور یہاں پرمیئروں کی جیت ہے۔

سی ایچ پی کی جانب سے ووٹوں میں اضافہ ہونے والے انقرہ، استنبول اور انطالیہ کی طرح کے بڑے شہروں کے امیدوار در اصل اس پارٹی کی روایتی شخصیات نہیں ہیں۔ ان کا کلاسیک سی ایچ پی ذہنیت  سے موازنہ کرنے سے ان کے سماجی اقدار میں کہیں زیادہ پُر حساس اور ان اقدار کے ساتھ  زیادہ بغلگیر  ہونے  کا کہنا ممکن ہے۔ سن 1994  کے انتخابات میں طیب ایردوان کےسورۃ فاتحہ پڑھنے پر  ردِ عمل کا مظاہرہ کرنے والی سی ایچ پی   کا  مؤقف آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔ ان انتخابات میں ہمارے ذہنوں میں سب سے زیادہ گہرے نقوش قائم  کرنے والی پیش رفت میں سے ایک ریپلیکن پیپلز پارٹی کے استنبول سے امیدوار اکرم امام اولو  کی  جانب سے یاسین  پڑھنا  تھا۔ ترک  معاشرے اور اقدار  سے  کہیں زیادہ قریب سی ایچ پی  ترکی کے مفاد  میں ہو گی۔  جیسا کہ میں نے اس سے قبل کے کالموں میں بھی  ذکر کیا  تھا کہ  یہ صورتحال صدارتی اور اتحادی نظام  کا ایک فطری نتیجہ ہے۔  جو کہ انتہا پسندوں اور کشیدگیوں کے بجائے کہیں زیادہ عقلِ سلیم کے مالک  انسانوں کے لیے سیاست کے  دروازے کھول رہا ہے ۔ 

ایچ ڈی پی کے باوجود 'کردستان ' نہیں ترکی کہنے والے کرُدی رائے دہندگان

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ہمیشہ کی طرح انتخابات سے پیشتر  ایک بار پھر  علیحدگی اور قطب پذیری کے حق میں اپنے تیور  کو پیش کیا۔ اس نے مشرقی علاقوں میں  اپنے راہے دہندگان کے "کردستان"  کے لیے ووٹ دینے کا کہا۔ ان انتخابات میں ایچ ڈی پی  کے گڑھ کی حیثیت رکھنے والے  چار شہروں میں اسے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ شرناک، آعرے، بطلس میں آک پارٹی جبکہ تنجیلی  میں ترک کیمونسٹ پارٹی  کامیاب قرار پائی۔ مشرقی اور جنوب مشرقی   علاقو ں کے رائے کردی  دہندگان نے  ترکی کے ساتھ چلنے  اور ایچ ڈی پی کی ملکیت نہ ہونے کا ایک بار  پھر واضح طور پر اظہار کیا ہے۔ ان نتائج کو آک پارٹی۔ قومی نیشلسٹ پارٹی کے  اتحاد  پر کردی رائے دہندگان کے  نالاں نہ ہونے اور  ٹرسٹی سروسز سےمطمئن ہونے  کی شکل میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔

شراکت میں کمی  کیا بیلٹ پیپرز پر پارٹی کی شناخت کا مطالبہ ہے؟

بلدیاتی انتخابات میںشرح شراکت دیگر جمہوری ممالک خاصکر مغربی ممالک کے ساتھ موازنہ نہ کیے جا سکنے کی حد تک بلند  سطح پر  ہے۔ ان انتخابات میں شرح شراکت 84 فیصد تک رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سے قبل کے انتخابات میں 89 فیصد شرح شراکت سے یہ 5 فیصد کم ہے جو کہ ایک بامعنی  شرح ہے۔  شراکت میں گراوٹ  ان انتخابات میں  اپنی شناخت سے نہیں بلکہ اتحادی شناخت کے طور پر  حصہ لینا مؤثر ہوا  ہو سکتا ہے۔  رائے دہند گان  کے ایک حصے  کا  عرصہ دراز سے  ووٹ  ڈالے جانےو الی پارٹی کے علاوہ کی پارٹی کو اتحاد کی چھت تلے ووٹ دینے  پر مجبور ہونا  بھی  اس عمل میں اثرِ انداز ہو سکتا ہے۔ اس بنا پر اگر آئندہ کے انتخابات میں دوبارہ اتحاد قائم ہوا تو  سیاسی جماعتوں کو  اپنی شناخت اور انتخابی نشان کے ساتھ بیلٹ پیپرز پر جگہ پانے کا موقع فراہم کرنے والے کسی نظام پر سوچ و بیچار بھی کی جا سکتی ہے۔

انتخابات کا ایک دوسرا نتیجہ 2014 میں 17٫8 فیصد ہونے والے  نیشلسٹ موومنٹ پارٹی  کا دو حصوں میں منقسم ہونا ہے۔اس پارٹی نے اب کی بار 7٫3 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں تو  بھی اس کے بڑے شہروں میں میئروں  کی تعداد 8 سے 11 ہو گئی  ہے،  اس  کے بر عکس 7٫4 فیصد  ووٹ پڑنے کے باوجود گڈ پارٹی  کسی بھی شہر میں کامیابی حاصل کرنے سے قاصر رہی ہے۔ سعادت پارٹی کے ووٹوں کا تناسب گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے ساتھ ایک جیسا رہا ہے۔

نتیجتاً  رائے دہی میں ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر فتح ڈیموکریسی  اور ترکی کی ہے۔ میں  امید کرتا ہوں کہ  حالیہ نتائج ، ترکی کے بارے میں منفی خیالات کے حامل انسانوں  کے لیے  ایک سبق کا وسیلہ بنیں گے۔

ھنے



متعللقہ خبریں