پاکستان ڈائری - 14

فیس بک اور ٹویٹر پر آپ  مقبوضہ کشمیر یا فلسطینیوں کے حوالے سے کچھ پوسٹ کریں تو سماجی رابطے کی یہ ویب سائٹس یا تو آپ کا اکاونٹ لاک کردیتے ہیں یا کچھ صورت میں آپ کو اپنے اکاونٹ سے ہی ہاتھ دھونا پڑتا ہے

1176264
پاکستان ڈائری - 14

پاکستان ڈائری - 14

بہت سے سوشل میڈیا صارفین میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ فیس بک اور ٹویٹر پر آپ  مقبوضہ کشمیر یا فلسطینیوں کے حوالے سے کچھ پوسٹ کریں تو سماجی رابطے کی یہ ویب سائٹس یا تو آپ کا اکاونٹ لاک کردیتے ہیں یا کچھ صورت میں آپ کو اپنے اکاونٹ سے ہی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ بہت سے صارفین کو یہ لگتا ہے فیس بک اور ٹویٹر کا فریڈم آف سپیچ صرف بھارتی پسند اور نا پسند کے ساتھ مشروط ہے۔اکثر لوگ جب پاکستان کے لئے ٹویٹ کررہے ہوتے ہیں تو انکو ای میل آجاتی ہے فلاں ٹویٹ انڈیا کے قوانین کے ساتھ متصادم ہے اس وقت ٹویٹر صارف اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ میں ٹویٹ پاکستان سے کررہا ہو اور پاکستان کے لئے کررہا ہو لیکن اس دوران انڈیا کہاں سے آگیا ۔

حال ہی میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران آئی ایس پی آر اور پاکستانی سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم رہا۔آئی ایس پی آر فوج کا تعلقات عامہ کا محکمہ جہاں سے فوج کے حوالے سے خبروں کی نشر و اشاعت ہوتی ہے۔اس کے ساتھ فوج کا جریدہ ھلال اردو انگریزی ،ھلال برائے خواتین اور کڈز بھی عوام میں آگاہی پھیلا رہا ہے۔اس کے ساتھ آئی ایس پی آر کے ماتحت ریڈیو نشریات بھی ہیں، نظریہ پاکستان،پاکستان کے شہدا غازیوں کے حوالے سے کتابیں بھی ہر سال شائع ہوتی ہیں اور 2014 کے بعد سے آئی ایس پی آر نے ملک کوبہترین قومی نغمے دئے جو ہر زبان پر ہیں ۔بھارت نے جس وقت بالا کوٹ پر دراندازی کی اس کی خبر سب سے پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ سے دی تاکہ عوام پریشانی کا شکار نا ہو۔ان کے اس بروقت ٹویٹ نے افواہوں کو پھیلنے سے روک دیا۔

اس کے بعد 27 فروری کو بھارت کی عبرت ناک شکست کے بعد بھی آئی ایس پی آر نے عوام کو آگاہ رکھا اور اس سے ان جعلی دانشوروں اور کالم نگاروں کا پروپیگینڈا ناکام ہوگیا جو پاکستان کی ہر جیتی جنگ کا فاتح بھارت کوقرار دے دیتے ہیں ۔میدان میں پاک فوج اور فضا میں پاک ائیر فورس،پانیوں میں پاک بحریہ نے بھارت کو شکست دی تو دوسری طرف آئی ایس پی آر نے انڈین میڈیا کے منفی پروپیگینڈا کا موثر جواب دیا ۔

پاکستان کے لوگ اپنی فوج سے بہت محبت کرتے ہیں جنگ کی صورت میں خود بھی آگے پہنچ جاتے ہیں کہ ہم بھی فوج کا بھرپور ساتھ دیں گے۔اس ہی طرح سوشل میڈیا وار اور فیفتھ جنریشن وار میں بھی سوشل میڈیا صارفین اپنی فوج کے ساتھ کھڑے رہے اور رضا کارانہ طور پر اپنے ملک اور فوج کے لئے ٹویٹ کرتے رہے ۔یہاں پر انکو فوج کے اکاونٹس کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ مشکل کے وقت میں ہر پاکستانی اس ملک کا فوجی بن جاتا ہے اور یہ ہی حالیہ کشیدگی کے دوران ہوا۔آئی ایس پی آر نے بھارتی جارحیت اور بھارتی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا منہ توڑ جواب دیا اور 

پاکستانی عوام  بھی اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔

اتنی بڑی تعداد میں جب عوام آرمی اور آئی ایس پی آر کے ساتھ کھڑے نظر آئے تو یہاں سے بھارت نے ایک بار پھر اس مہم کا آغاز کردیا جس کی زد میں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین بہت عرصے سے ہیں ۔وہ ہے پاکستانی محب وطن اکاونٹس کو رپورٹ کرکے معطل کروادینا۔فیس بک اور ٹویٹر کے دفاتر بھارت میں ہیں پاکستان میں نہیں اس لئے پاکستانی صارفین کی شنوائی نہیں ہوتی۔اگر پاکستانی صارفین مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک پر بات پاکستان سے کریں یا برہان وانی کی تصویر اپ لوڈ کریں تو پوسٹ خود ہی ڈیلیٹ ہوجاتی ہے۔بعض اوقات اکاونٹ لاک ہوجاتا ہے یا پیج یا پروفائل ہی ختم کر دئے جاتے ہیں ۔حال ہی میں ایک سوشل میڈیا صارف کا فیس بک اکاونٹ اس لئے بند کردیاگیا انہوں نے ابھی نندن پر ایک مزاحیہ شعر لکھا تھا ۔پاکستان کے معروف اینکر احمد قریشی  کا ٹویٹر اکاونٹ صرف مقبوضہ کشمیر پر بات کرنے پر بند ہواتھا۔جس وقت ان کا ٹویٹر اکاونٹ انتظامیہ نے معطل کیا انکو اس بارے میں مطلع بھی نہیں کیا گیا اور انکے ایک لاکھ 73 ہزار فالورز تھے۔اب تک ٹویٹر نے ان کا اکاونٹ بحال نہیں کیا۔

 اور صرف یہ ہی نہیں ٹویٹر نے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل کا ذاتی اکاونٹ بھی عالمی عدالت انصاف میں کل بھوشن کیس کی سماعت کے دوران معطل کردیا تھا بعد میں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کے احتجاج پر اکاونٹ بحال ہوگیا تھا جسکو انتظامیہ نے انسانی غلطی قرار دیا گیا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ غلطیاں صرف پاکستانی صارفین کے ساتھ ہی کیوں ہوتی ہیں ورنہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد بھی کھلے عام پڑا ہے اور بھارت سے جعلی بلوچ اکاونٹس بھی چل رہے ہیں آزادی رائے صرف اس وقت خطرے میں آتی ہے جب پاکستانی اپنی رائے دینے لگیں ۔

ٹویٹر پر بہت سے صارفین کو یہ ای میل پاکستان میں موصول ہوئی کہ آپ نے بھارتی قانون کی خلاف ورزی کی ہے جس پر انہوں نے ٹویٹ کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا کہ کیا ٹویٹر فیس بک کی آزادی رائے بھارتی قوانین اور نظریے کے ساتھ مشروط ہے۔حال ہی میں ایک خبر رساں ایجنسی اور غیرملکی اردو ویب پر آئی ایس پی آر کے فیس بک اکاونٹس بند ہونے کی خبر آئی ۔  Digital Forensic Research Lab کے ساتھ منسلک بین نیو نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ فیس بک نے اس بات کا پختہ ثبوت نہیں دیا کہ کہ اکاونٹس آئی ایس پی آر کے اہلکاروں کے تھے۔ تاہم ہر جگہ یہ سرخیاں ضرور لگ گئ کہ اکاونٹ آئی ایس پی آر کے تھے۔ وہ اکاونٹ آئی ایس پی آر کے تھے یا فین اکاونٹس کی آڑ میں آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور فوج کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔کیونکہ آئی ایس آئی کے ساتھ اب آئی ایس پی آر بھی بھارت کے حواس پر چھا گیا ہے۔بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے اب اپنی توپوں کا رخ آئی ایس پی آر کی طرف کردیں گے۔تمام وطن مخالف لوگ آئی ایس پی آر کی کارکردگی اور جیت سے خائف ہیں ۔

بھارت کے سابق جنرل نے حال ہی میں اس بات کا اعتراف کیا کہ آئی ایس پی آر نے پاکستان کو ہائبرڈ وار میں فتح دلوائی ۔ان کے مطابق آئی ایس پی آر نے کشمیریوں کو بھارتی فوج اور قوم سے دور کردیا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے معلومات کی نشر میں انتہائی مہارت کا مظاہرہ کیا یہ ہائبرڈ وار کا دور ہے اور یہ جنگ پاکستان جیت گیا ۔اس بیان کے بعد کچھ دن کے بعد سوشل میڈیا اکاونٹس پر کریک ڈاؤن ہوتا ہے اور نام لگا دیا جاتا ہے کہ آئی ایس پی آر کے اکاونٹ تھے۔

اگر کوئی فین اکاونٹ ہے اور وہ اپنے ملک اور فوج کے لئے ٹویٹ کرتا ہے اور کسی قسم کے نفرت آمیز روئے کا باعث نہیں تو اس کو بند کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔اگر کوئی فرد واحد آرمی کے نام سے پیج چلا رہا تو لازمی نہیں کہ اسکا تعلق آئی ایس پی آر سے ہو۔اسلام فوبیا، گستاخانہ خاکے اور پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر بہت سے پیج اور اکاونٹ سوشل میڈیا پر موجود ہیں ان پر تو ٹویٹر اور فیس بک انتظامیہ ایکشن نہیں لیتے لیکن یہاں پاکستانی اپنے ملک کی تعریف کریں اپنی فوج سے محبت کا اظہار کریں یا کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کی بات کریں تو فیس بک بند انسٹاگرام بند اور ٹویٹر بند کیا ہم پاکستانی اپنے لئے کوئی الگ سماجی رابطے کی ویب سائٹ بنالیں ۔پاکستانی حکومت فیس بک انتظامیہ اور ٹویٹر انتظامیہ سے بات کرے انہیں علاقے کی سیاسی اور جغرافیائی صورتحال اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آگاہی دیں تاکہ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین آزادی سے اپنا نکتہ نظر سوشل میڈیا پر بیان کرسکیں ۔

 



متعللقہ خبریں